مرنا تو ہے
تحریر: یارجان زیب
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کی سب سے بڑی حقیقت کا سامنا سب کو کرنا ہے، پھر چاہے وہ انسان ہو یا کوئی حیوان یا کوئی جن، سو سال زندہ رہنے کے بعد بھی مرنا تو ہے. ایک دن ہم کسی دوست کے گھر میں بیٹھے تھے، وہاں ایک دوست نے بہت گہری بات کی کہ مرنا تو سب کو ہے مگر کمبخت موت کو سامنے دیکھ کر ہر ایک کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انسان بغیر کسی مقصد کے اپنی زندگی کا خاتمہ کردے۔
انسان اگر کچھ کرنے کا ٹھان، مقصد کے لئے سب کچھ کرے تو وہ کھبی ناکام نہیں ہوتا، بے شک مشکلات اور پریشانیاں آتی ہیں، اور ہم دیکھتے بھی ہیں، مگر ہار مان کر بیٹھ جانا یہ بھی تو نا امیدی کی نشانی ہے۔ اور نا اُمیدی کفر ہے، بے شک مشکلات کے بعد آسانی ہے۔
بلوچستان کے سرزمیں پر جہاں باہمت جوانوں کے قدموں کے نشان آج بھی اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کا درس دیتے ہیں، وہیں کچھ کم ظرف لوگ ہمیں تعلیم کے میدان سے لے کر شعور کے ایوانوں تک خون کے سرخ ندیوں میں ڈبو دینا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمت و حوصلہ اس قدر بلند ہے کہ آج بلوچستان کے ہر گلی کوچے میں شعوری سفر جاری ہے اور اگر یہ سفر ایسے ہی جاری رہاتو وہ دن دور نہیں جب بلوچ ایک مثالی قوم بن کر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگا۔
یہاں یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ شعوری سفر یا شعور کے معانی کیا ہے، شعور کے معانی جاننا ہے، مطلب ہر بات، ہر کام، ہر چیز کے بارے میں جاننا۔
دشمن کو دشمن کے نظریے سے مات دینا، جو وقت کی ضرورت ہے، ہمارا دشمن ہمارے اندر ہے یعنی باہر کے لوگوں کو غدار کہنے سے پہلے اپنے گھر کے غداروں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ سرزمیں کی حفاظت صرف ہتیھار سے نہیں بلکہ تعلیم ،ہنر، شعور سے بھی کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو مزید کارآمد بنانے کی ضرورت ہے اور رنگ ،زبان اور علاقائی جنگوں سے بار آنے کی ضرورت ہے، تب ہی ہم روشن مستقبل کی طرف پیش قدمی کرسکیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔