ماہ وش کی منتظر نگاہیں
تحریر: سلمان حمل
دی بلوچستان پوسٹ
میں کس دہرائے پر کھڑا ہوں، یہ شاید مجھے بار بار ستائے گا، جلتے گھر، ویران بازار، گولیوں سے چھلنی لاش اور لاپتہ ہونے کا نہ رُکنے والا تسلسل اور جنگ کی بے رحم لہریں۔ اور جنگ ہوتے بھی ہیں بے رحم، جب رحم ہو تو نہ جنگ ہوگا نہ گھر جلیں گے، نہ بازار اجڑیں گے، نہ لاش گریں گے اور نہ ہی کوئی لاپتہ ہوگا۔ یہ شاید میں ہضم کرسکوں۔
مگر یہ کسی چھوٹی سے بچی کو کیسے ہضم ہوگا، جب اس نے آنکھ کھولی تو احتجاجی کیمپوں سے پالا پڑا۔ بلوچستان میرا وطن وسائل کا انبار، جب دیارِ غیر ہوگیا ہو ان کیلئے جو کبھی فخر سے کہتے تھے کہ ” کوھنگ ءِ اے کوہیں کلات کسّی پت ءِ میراس نیاں”۔
مگر ان افتادگانِ خاک نے تو کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں اور ایک نسل جنگی حالت میں پل کر جوان ہوگیا ہے۔ ہر گھر میں ایک شہید اور ہر گھر میں ایک لاپتہ فرد ہے اور اسی گھر میں ایک بچی یا بچہ ایسا بھی جو زندگی کے خوش کن لمحات احتجاجی کیمپوں میں گذار رہی یا رہا ہے۔ جو زندگی کے خوشیوں کو محسوس ہی نہیں کرسکتا، وہ صرف ایک عکس کو پہچانتا ہے کہ یہ میرا اپنا ہے، میں اس کا جگر گوشہ ہوں اور وہ لاپتہ ہے، میں اس کے تلاش میں سرگرداں ہوں۔ تو مسکراہٹ بہ مشکل ہونٹوں پہ بسیرا کرے۔
ماھو جب بالکل چھوٹی سی تھی میں اس سے کھیلنے کی کوشش کرتا تو ایک خاموش سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا دیتی تھی اور میں دلِ ناتواں کو بھی تسلی دیتا تھا۔ اب کے جب ماھو کا احوال پوچھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ خاموش سی رہتی ہے اور کبھی کبھار اچانکی کسی سے ایک دو بات کرتی ہے۔ تو میں سوچتا ہوں کہ ماھو جب مجھے کاکا کہہ کر بلائے گی اور میں مسکراتا ہوا اسے بلاؤں گا تو ماھو کا رد عمل کیا ہوگا۔ تو ایک خاکہ ذہن میں تیار ہوتا ہے کہ ماھو ایک تصویر کے ساتھ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بیٹھی ہیں اور احتجاج میں شریک ہے، اپنے دادا کو تلاش رہی ہے۔
میں جب اسے قریب آنے کو کہونگا تو چپ چاپ سی خاموش منتظر نگاہوں سے جواب دے گا کہ کاکا میں مسکرا نہیں سکتی میری آنکھیں اب بھی منتظر ہیں۔ دادا جان آٹھ سالوں سے لاپتہ ہیں میں دادا جان کو لے کر آؤنگی اور مسکرا کر آپ سے گلے ملونگی۔
ابھی نہیں مگر کاکا آپ کب آؤگے ہمیں پریس کلب جانا ہے۔ ہم آپ کے بھی منتظر ہیں۔ اور میں ماھو سے مخاطب ہوں کہ بس آرہا ہوں چند دن بعد آپ سے ملوں گا اور آپ کو دیکھ لوں گا آپ سے مزاق کرلونگا آپ کو مسکراتے ہوئے بھی دیکھ لونگا مگر یہ منتظر نگاہیں، پھر بھی منتظر تو ہیں نا؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔