مادری زبان میں تعلیم دی جائے
تحریر : سمیر رئیس
دی بلوچستان پوسٹ
ہر سال 21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ زبانوں کے عالمی دن کی ابتداء اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1999ء میں کی، اس موقع پر دنیا بھر میں سیمنار، جلسے اور رنگا رنگ تقاریب منعقد کی گئیں۔ سوشل میڈیا پر بھی عالمی یومِ مادری زبان کے حوالے سے ڈھیروں پیغامات پوسٹ کئے گئے۔ کسی نے اپنی زبان کا جشن منایا تو کسی نے اپنی زبان کی تباہی کا ماتم منایا۔ کسی نے نصیحت کی تو کوئی اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا۔ گویا عالمی یومِ مادری زبان کے موقع پر زیادہ تر لوگوں نے اپنی زبان سے محبت کا اظہار اپنے اپنے انداز میں کیا۔
بلوچ چونکہ کسی ایک خاص قبیلے سے نہیں نکلے جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ بلوچی زبان فلاں قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی باقیات ہے. بلوچ قوم میں تو مختلف رنگ و نسل کے لوگ شامل ہیں. چونکہ بلوچ قدیم دور سے ہی معاشی ضرورتوں، جنگی مجبوریوں کی وجہ سے ایک ملک سے دوسرے ملک کو ہجرت کرتے رہے، تو مختلف اوقات میں مختلف سرزمینوں پر مختلف اقوام سے مل کر ان کی زبان میں بھی مختلف زبانوں کی آمیزش شامل ہوتی رہی۔
قبل مسیح کے زمانے میں بلوچی زبان پر تبصرہ میرے لیے شاید ممکن نہیں مگر موجودہ بلوچی زبان پر اگر نظر ڈالیں تو اس میں فارسی کا کافی زیادہ عمل دخل ہے. بلوچستان میں بلوچی زبان کی دو قسمیں ہیں؛ مکران میں بولی جانے والی بلوچی میں قدیم فارسی کی آمیزش موجود ہے بلکہ اسے قدیم فارسی کی شاخ بھی سمجھا جاتا ہے۔
دنیا کی ہر قوم زبان کے اعتبار سے اپنی الگ شناخت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین، جاپان، جرمن، فرانس، روس، امریکہ اور باقی انگریز قوموں نے اپنی اپنی مادری زبانوں میں تعلیم وتربیت حاصل کی۔
انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے سے پہلے اس بات پر یقین کر لیا تھا کہ اگر کسی بھی قوم کو غلام بنانا ہے تو اس قوم سے اس کی زبان کو چھین لیا جائے کیونکہ جو لوگ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں ان کو کبھی بھی غلام نہیں بنایا جا سکتا۔
ہمارے ملک میں عام طور پر انگریزی اور اردو زبان کی تعلیم سکول داخل ہونے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے اور قبل اس کے بچے اپنی زبان پر پوری قدرت حاصل کر سکیں ان کو ایک غیر ملکی زبان پڑھانا شروع کردیا جاتا ہے اور ان سے انگریزی اور اردو میں مہارت پیدا کرنے کی کوشش کرائی جاتی ہے۔ اکثر ایسے بچوں کو انگریزی اور اردو پڑھتے دیکھا گیا جو اپنی مادری زبان میں لکھا ہوا ایک حرف بھی نہیں پڑھ سکتے، ایک معمولی فقرہ بھی نہیں سمجھ سکتے، اس لئے قواعد کے اصول اور پڑھنے لکھنے کے بنیادی قاعدے جوتمام زبانوں میں یکساں ہیں اور خود مادری زبان میں زیادہ آسانی اور کامیابی سے سمجھے اور سیکھے جا سکتے ہیں ان کو انگریزی اور اردو میں پڑھنا اور سیکھنا پڑتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو اپنی زبان میں پوری مہارت حاصل ہوتی ہی نہیں ہے۔
مادری زبان انسانی ، شناخت ، تشخص اور کردار سازی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہر وہ زبان جس میں لٹریچر تخلیق پا سکتا ہو، ترسیل علم کے لئے بہترین مانی جاتی ہے۔ جب کہ لٹریچر کا تعلق بھی مادری زبان سے ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ماہرینِ تعلیم کی رائے میں ذریعہ تعلیم کے لئے مادری زبان سے بہتر کوئی زبان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقّی یافتہ دنیا میں زیادہ تر ممالک میں تعلیم مادری زبانوں میں دی جاتی ہے۔ چین میں چینی زبان، جاپان میں جاپانی زبان، جرمنی میں جرمن زبان، فرانس میں فرانسیسی زبان ، انگلینڈ، امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا وغیرہ میں انگریزی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق طلبہ کی ابتدائی تعلیم کے لیئے سب سے موثّر زبان، مادری زبان ہے۔ مادری زبان میں تعلیم سے طلبہ کی تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم دیئے جانے میں ایک آسانی یہ ہوتی ہے کہ طلبہ کے پاس اپنی زبان کے علم کا ایک ذخیرہ پہلے سے موجود ہوتا ہے، اس لیے دورانِ تعلیم بوریت کی بجائے طالب علم خوشی محسوس کرتا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم سے طلبہ کے ذہن پر کم بوجھ پڑتا ہے اور طلبہ کے سکول چھوڑ نے کی شرح میں بھی حیرت انگیز کمی دیکھنے میں آتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔