لاپتہ سمیع مینگل اور شہید سمیع مینگل
“ایک ہی کشتی کے دو بدقسمت مسافر”
تحریر: فراز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، کیا کوئی تکلیف کرکے اس بارے میں جاننے کو تیار ہے؟ وہاں ایک طرف میڈیا کی مُسلسل خاموشی، اور پردے کے پیچھے چھپے حقیقت تلاش نا کرنے میں اختیار شدہ جانبدارانہ رویہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے تو دوسری جانب بلوچستان سلگتے ہوئے اپنے پیارے بچوں کو تیزی سے کھا رہی ہے، ہرطرف خون کے ندیاں بہائے جارہے ہیں۔ حالات خطرناک حد تک گھمبیر ہوتے جارہے ہیں، لوگ پھوٹ کے چلاتے، پکارتے اور روتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کیوں لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور پھر برسوں تک زندوں میں رکھ کر ذہنی مریض بنا دیا جاتا ہے، کسی کے کان تک جُو نہیں رینگتی مگر سب کہتے ہیں بلوچ خواتین ہمارے ننگ و ناموس ہیں، انہیں باہر سٹرکوں پر احتجاج کرتے ہوئے دیکھ کر شرمندگی محسوس ہوتی ہے لہٰذا وہ بلوچ کی روایات کو مقدس سمجھ کر گھر بیٹھیں مگر جب فرزانہ مجید، سمی بلوچ ، بی بی گل اور لاپتہ رمضان بلوچ کی بیٹی نے ماما قدیر بلوچ کے سرپرستی میں کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد کا پیدل لانگ مارچ کیا تو کیوں بلوچ روایات اور کسٹمز ہمارے ایوانوں میں بیٹھے سیاسی لیڈران، سوشل اور سِول ایکٹوسٹوں بشمول ان کو یاد نہیں آیا جو انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔
بلوچ مسنگ پرسنز کے پریس کلب کوئٹہ کے سامنے لگے کیمپ میں لوگ جانے سے کتراتے ہوئے کہتے تھے کہ وہاں تو سمیع مینگل کا آویزاں تصویر لگا ہوا ہے، وہاں کیسے وہ جاکر سمیع مینگل کے ضعیف والدہ کے سامنے رکھے لاپتہ سمیع کا عکس اٹھا کر تھوڑا بلند کردیں، سمیع مینگل تو بی۔ایس۔او کا کارکن تھا، وہ تو کہتا تھا کہ کتاب کو اپنا دوست بنائیں، پڑھائی پر زور دیں، علاقائی لائبریریوں کو فعال کریں، غریب اور آگاہی کے پیغام سے دور بلوچ اسٹوڈنٹس کو تعلیم کی طرف راغب کرنے میں ہر کوئی اپنا کام سرانجام دیں، کیونکہ تعلیم سے دُوری انسان کو زمینی اور جیوگرافیائی حقائق سے لاعلمی کی طرف دھکیلتا ہوا سماجی برائیوں کے دلدل میں اضطرابی کیفیت میں دھنسا دیگا، جس سے منشیات کا لت اور پھیلاو تیزی سے بڑھ جائے گا۔ اور اسی صورتحال میں صرف اور صرف فائدہ ایک ہی طبقے کو ملے گا جو ہیں استعماری استحصالی قوتیں، جن کے ایماء پر بلوچستان میں منشیات عام کیا جارہا ہے جو بلوچ قوم کے ہر بچے کو نگل جائے گا۔
سنا کسی نے نہیں، اُدھر سمیع مینگل انسانوں کی بھیڑ میں اکیلے رہ گیا۔ افغانستان سے متصل سرحدی پٹی سے استعماری قوتوں کے ایماء پر منشیات دخل ہوتا رہا اور سمیع مینگل کو گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے پورا ہونے کو ہے، مگر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں آنکھوں سے معزور سمیع مینگل کی والدہ اپنے لخت جگر کا تصویر ہاتھوں میں رکھتی ہوئی اس انتظار میں ہے کہ کب وہ دن آئے، سمیع مینگل مسکراتے ہوئے ازیت خانوں سے صحیح سلامت لوٹ آئیں۔
سیمع مینگل کا عکس اٹھانے سے لوگ کتراتے تھے، اِنہیں اپنی زندگی پیارے تھے، مگر سمیع مینگل کے نظریات کو اپنائے بغیر بھی لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، غیر انسانی زندانوں میں بناء قانونی عمل کے بھیجے گئے، لاپتہ ہوتے رہے لوگ، لاشیں گرنے کا عمل تھما نہیں اور بلوچ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا اپنے لاپتہ پیاروں کیلئے ننگے پاؤں سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے کا سلسلہ ختم نا ہوا، وہ جنہیں سردار یار محمد رند گھروں کو بیٹھنے کا نصیحت کرتا رہا وہ آج حیرانگی سے ایک سوال پوچھ رہے ہیں کہ جب سمیع مینگل کے ضعیف والدہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتی تھی تو بلوچستان کے سردار اور متبعریں کو کیونکر خیال نہیں آیا کہ وہ سمیع مینگل کے والدہ کی آبدیدہ انکھوں کے آنسوؤں کا حصہ بنکر اس عمر میں اسکی آنکھوں کے بینائی کا مسیحا بنیں۔
بلوچستان قتل کا تجربہ گاہ تھا، ہے اور رہیگی۔ لوگ کہتے ہیں پوچھنے والا کوئی نہیں، بروقت ایکشن لینے والا کوئی نہیں بس بلوچ کا تقدیر ہی ایسا لکھا ہے، جتنی بھی کوشش کرلیں اس میں کوئی بھی واضح فرق نظر نہیں آتا۔ طالب علموں سے لیکر مزدور، کسان، ڈرائیور، سرکاری ملازم اور کچھ بیوروکریٹ کا رونا ہے کہ اُنہیں ہر بار وفاقی حکومتیں ہی دھوکا دیتے ہیں۔
مگر اُس نوشکی، جس کی کل کیلئے مثبت سوچنے والے سمیع مینگل قربانی دیتے ہوئے لاپتہ ہوئے، ٹھیک گیارہ سال بعد ایک اور سمیع مینگل سمجھ سکا، معاشرتی برائیوں کا سراغ لگانے کو گھر سے نکلا اور اُسی یونیورسٹی میں زولوجی کا طالب علم رہا جہاں لاپتہ سمیع مینگل جیوگرافی پڑھنے کو چلا تھا مگر امید کی تکمیل سے پہلے نامعلوم جیل بھیج دیا گیا، لاپتہ سمیع مینگل کا خبر اب تک آیا نہیں، مگر جامعہ بلوچستان سے زولوجی ڈگری لینے کا خواہشمند سمیع مینگل کو ڈگری کی تکمیل تک پہنچنے نہیں دیا گیا، کیونکہ قوتیں وہی ہیں جنہوں نے سمیع مینگل کو لاپتہ کردیا، اِنہیں سوال کرنے کا اجازت ہی نہیں۔
آزادیِ رائے پر پابندی عیاں ہے نا ہی کوئی منشیات روک تھام کا مہم چلا کر سوال پوچھ سکتا ہے اور نا ہی کسی عوامی آگاہی کا اجازت حاصل ہے۔ بولنے اور کہنے والے سمیع مینگل کی طرح لاپتہ ہوسکتے ہیں اور شہید بھی۔ اگر پھر بھی کسی کے ذہن میں کوئی کنفیوژن ہے تو وہ چاغی میں اسسٹنٹ کمشنر کے چھاپے سے برآمد ہونے والے منشیات کے ردعمل میں ڈویژنل کمشنر کے ناراضگی کا غورِطب جائزہ لیں سب دودھ کا دودو اور پانی کا پانی ہوکر رہ جائینگے اور منشیات فروشوں کے خلاف شکایت کرنے والے شہید سمیع مینگل اور لاپتہ سمیع مینگل دونوں کے پسِ پُشت موجود قوتوں کا علم ہوجائیگا۔
نوجوان شہید سمیع مینگل کا رُوح آج کچھ یوں کہتے ہوئے رحلت فرما گئے کہ بلوچ اور بلوچستان کیلئے قربانی دینے والے سب بلوچوں کا ایک ہی پیغام ہے جو صدا چمکتی ہوئی بلوچ کے آخری خون کے قطرے تک رہیگا وہ ہے،
“چراغِ زیست بجھا کر میرا نہ جشن منا
شہیدِ راہ خدا ہوں میں اب بھی زندہ ہوں
بے سبب تم نے بہایا آج جو میرا لہو
کل بروز حشر پوچھوں گا خدا کے روبرو”
بلوچستان میں طلبہ کی جدوجہد ایک بار پھر ابھرا ہوا ہے جو کہ سامراج اور اس کے چمچوں کو چین کی نیند سونے نہیں دیگا، نوجوانوں کو اپنے منزل کے حصول، اپنے حقوق کی جنگ اور اپنے قوم پرستی کا اعلیٰ مثال قائم کرنا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔