بلوچستان میں گذشتہ دو دہائیوں سے سیاسی وابستگی رکھنے والے بلوچوں کی جبری گمشدگی ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے، جس کی شدت میں روز افزوں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے مختلف سیاسی جماعتیں اور خاص طور پر ان لاپتہ بلوچوں کے لواحقین مسلسل احتجاج کررہی ہیں۔
لاپتہ بلوچوں کے مسئلے نے اس وقت سنجیدہ شکل اختیار کرلی، جب سنہ 2009 سے ان لاپتہ افراد کی انتہائی تشدد زدہ اور مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس انسانیت سوز عمل کو ” کِل اینڈ ڈمپ” یعنی مارو اور پھینکو کی پالیسی قرار دیکر اس کی شدید مذمت کی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سردار اختر جان مینگل نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ میرے بھائی اسداللہ مینگل اور احمد شاہ پاکستان کے پہلے لاپتہ افراد تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ آج 44 سال ہوچکے ہیں اور ہمارے اہل خانہ انصاف کے خواہاں ہیں۔ لاپتہ افراد کا معاملہ میرے دل کے بہت قریب ہے جس کے باعث میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے تکلیف کو محسوس کو کرسکتا ہوں۔
My brother Asadullah Mengal & Ahmed Shaw were the first missing persons of Pakistan. It’s been 44 years today, and our families yearn for justice. The issue of missing persons is very close to my heart for I know the pain the families feel.
— Akhtar Mengal (@sakhtarmengal) February 6, 2020
خیال رہے اسداللہ مینگل کو 1976 میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور آج تک ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔
سماجی کارکن اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق سینٹرل کمیٹی کے ممبر لطیف بلوچ نے اس حوالے سے لکھا کہ 6 فروری 1976 کو اسد مینگل اور احمد شاہ کو لاپتہ کیا گیا، بھٹو نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ اسد مینگل اور احمد شاہ کو دوران حراست قتل کیا گیا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے دوران حراست بلوچ نوجوانوں کو قتل کرکے مسخ لاشیں سڑکوں پر پھینک دی جاتی ہیں۔
واضح رہے آج وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کراچی پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا جارہا ہے جبکہ بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر #SaveBalochMissingPersons ہیش ٹیگ کیساتھ کمپئین چلائی جارہی ہے جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد حصہ لے رہے ہیں۔