قومی مرکزیت – میرک بلوچ

252

قومی مرکزیت

تحریر: میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب کسی ذمہ داری کا احاطہ کرتے ہیں تو سارے مضمرات پر بھی باریک بینی سے غور کرنا نہایت ضروری بن جاتا ہے۔ قومی ذمہ داریاں بہت سی چیزوں کا تقاضہ کرتی ہیں۔ اس میں سب سے اہم فرائض کی ایماندارانہ انجام دہی از حد مرکزیت کی درستی لازم بن جاتے ہیں ۔غیر سنجیدگی، سطحی اور بے ڈھنگا پن کسی بھی طرح سے نتیجہ خیز نہیں ہوتے۔ ہر طرح کا عمل دور رس اثرات کے عامل ہوتے ہیں ۔ علم کی کمی ،تاریخی حقائق سے نابلدی، معروضی حالات سے لاعلمی، تجزئیے سے ناواقفیت، بین الاقوامی حالات سے بے خبری ، سستی و کاہلی، سہیل پسندی و آرام طلبی، غور و فکر سے عاری، سوچ میں تضاد، ڈسیپلین کا فقدان، تنگ نظری، گروہی مفادات، ذاتی تعلقات، دروغ گوہی ،پسند و ناپسند، سرگرمی سے پہلو تہی، لفاظی و خودستائی، عیش پسند و بیگانگی، نمود و نمائش، قومی فرائض سے بیزاری، بہانہ بازی تباہ کن ثابت ہونے کے ساتھ قومی مرکزیت کو نیست و نابود کرتے ہیں ۔

اہداف کا تعین یقین و سچائی کے ساتھ درست ثابت ہوتے ہیں ۔ اگر قومی مرکزیت سے کنارہ کش ہوکر آزاد خیالی کو اپنا کر بہانے تراش کر یہ جواز پیش کرنا کہ فی الحال حالات اچھے نہیں یا کچھ اور کرنے کی ضرورت ہے تو منافقت کا یہ انداز قومی مرکزیت سے کنارہ کشی کا سبب ہوجاتے ہیں ۔ قومی مرکزیت سخت ڈسیپلین کی مرہون منت ہوتی ہے۔ سنجیدگی، دیانت داری، قومی کاموں سے لگن، مقصد پر یقین، بہادری، بےباکی، جرات استقلال، ثابت قدمی، یگانگت، جوش و جذبہ، نمایاں کارکردگی قومی مرکزیت کے لیے لازم ہوتے ہیں ۔ یہ بات طے ہے کہ اگر کسی نظریہ کے نافذ کرنے کا وقت آجائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی ۔

قومی مرکزیت تنگ نظری سے پاک و شفاف ہوتا ہے، قومی مرکزیت میں نظریہ ہی اولین شرط ہے۔ نظریئے کے ماننے والے تمام قسم کے خرافات سے دور ہوتے ہیں ۔ اپنے نظریہ پر پختہ یقین اور ہر قسم کی قربانی اور اپنے وجود کی نفی بلند مرتبے کے ساتھ ہدف پر نظر رکھنا ہی درست سمت کا حامل ہوتے ہیں ۔ قومی مرکزیت اجتماعیت کی عظیم صورت ہے اور اس سے گرہز انفرادیت کی بھیانک شکل ہے ۔ قومی مرکزیت کے لیے کسی اور سمت کی طرف مائل ہونا بربادی و تباہی لانے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ قومی مرکزیت کثیرالخیالات سے ہٹ کر نظریئے پر مرتکز رہنے کا نام ہی ہے ۔ قومی مرکزیت کے لیے دوغلے پن کی کوئی گنجائش نہیں، راست اقدامات ہی قومی مرکزیت کی وسعت کا عیاں ہے۔ نظریئے میں سکڑ پن آنے سے قومی مرکزیت کا دھارا بکھر کر چکنا چور ہوتا ہے۔ اور اس سکڑ پن سے نظریاتی بانجھ پن پیدا ہوکر جمود طاری کردیتا ہے پھر انتشار کا خوفناک دور شروع ہوکر تمام چیزوں کا خاتمہ کردیتی ہے۔ قومی مرکزیت اپنی شاندار حیثیت میں اس وقت وسعت پزیر ہوجاتی ہے جب نظریئے پر من و عن عمل پذیر ہوکر آگے بڑھا جاتا ہے۔ اس عمل سے تمام پرتیں متحرک ہوکر تحریک کو بام عروج پر پہنچا دیتے ہیں اور قومی مرکزیت کو اتنا مضبوط کردیتے ہیں کہ ساری چیزیں ایک نقطے پر جمع ہوکر فتح و کامرانی حاصل کرتے ہیں۔

قومی جدوجہد قومی مرکزیت کے ہی ذریعے نظریاتی پیرائے میں سنور کر جدوجہد کے تمام تقاضوں کو پوری طرح ہم آغوش کرکے مربوط کردیتا ہے اور منزل کا حصول یقینی بن جاتا ہے۔ قومی مرکزیت ہی تحریک کو عوام سے جوڑے رکھتی ہے اور بلند مرتبت سے تحریک کی کامیابی روشن اور واضح ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر کی تحریکات اور خاص طور پر قومی آزادی کی تحریکات ایک مربوط قومی مرکزیت کے تحت ہی کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ بلوچ قومی مرکزیت 13 نومبر 1839 کے تاریخی تناظر میں 11 اگست 1947 کی پوزیشن کی بحالی ہے جو 27 مارچ 1948 کے قبضے کے نتیجے میں سلب ہوئی اور وسیع و عریض گل زمین بلوچستان اور اسکے باسی بلوچ قوم اغیار کی ماتحتی و غلامی میں چلی گئی۔

موجودہ صورتحال میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک سے وابسطہ بیرون ملک مقیم جہدکاروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی مرکزیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے اور بین الاقوامی حالات کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال سے بھرپور استفادہ حاصل کرکے عالمی برادری خاص طور پر USA ،یورپی یونین UN, میں منظم انداز میں موقف کو پیش کریں اور بین الاقوامی رابطوں کے لیے اپنے قومی اداروں کو جلد از جلد تشکیل دیں تاکہ کوئی انفرادی طور پر کنفیوژن پیدا نہ کرسکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔