قدغنی توازنِ اقدار
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
کوئی بھی تحریک یا انقلابی تنظیم رضاکاروں پر مشتمل ہوتا ہے، جہاں سربراہ سے لیکر کارکن تک سب رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات، اپنی زندگیاں ایک نظریئے اور مقصد کے حصول کی خاطر تحریک کے حوالے کرتے ہیں۔ اس حوالگی کا محرک تنخواہ یا مراعات کے بجائے نظریئے پر ایمان اور جذبہ ہوتا ہے، اسی لیئے تنظیم یا تحریک کے ڈسپلن کا دارومدار بھی نظریاتی پختگی اور ایک ایک کارکن کے مقصد پر یقین اور حوصلے پر آکر ٹہرتی ہے۔ ڈسپلن برقرار رکھنے کیلئے سزا و جزا کے معیار مقرر کیئے جاسکتے ہیں، لیکن خاص طور پر جزا کا معیار ایک ریگولر آرمی سے برعکس کبھی مادی نہیں ہوتا، لہٰذا کسی تحریک میں قدغنی توازنِ اقدار زیادہ بار آور ثابت نہیں ہوتے۔ اسی لیئے تحریک کا توازن و ڈسپلن ہمیشہ اسکے کارکنان کے انفرادی نظریاتی معیار پر منحصر رہتا ہے۔ لہٰذا چیک اینڈ بیلنس کا بہترین تصور خود پر یعنی موضوعی چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہوتا ہے۔
کچھ غیرتنظیمی، غیراصولی، غیرانقلابی اور غیرتحریکی رویوں، مزاج اور جہدکاروں کے طریقہ کار کا اگر علم نفسیات کے تناظر اور پہلوؤں سے مشاہدہ کیا جائے یا نفیسات کے کتابوں کی ورق گردانی سے ریسرچ کرکے نتیجہ اخذ کیا جائے تو یہ وزن دار دلیل اور وضاحت ابھر کر سامنے آتا ہے کہ جب اپنے نظریہ و فکر، مقصد سے مکمل عشق و جنون، مخلصی، ایمانداری، سچائی، لگن اور دلچسپی نہ ہو تو کوئی بھی جہدکار اپنے کام اور ذمہ داریوں سے بیگانہ اور غافل ہوجاتا ہے اور احساس ذمہ داری کا اس میں قحط پڑجاتا ہے مثلاً وقت کی پابندی نہیں کرنا، بروقت اپنی ذمہ داری کو نہیں نبھانا، حادثاتی و وقتی طور پر نہیں بلکہ بار بار کسی بھی کام و ذمہ داری کو بھول جانا۔
کوئی بھی کام و مفاد اگر براہِ راست انسان کی ذات سے وابستہ ہو، وہ تنظیمی و تحریکی نہ ہو، اس کو نہیں بھولنا، یاداشت میں محفوظ رکھنا، نظر انداز نہیں کرنا، مکمل توجہ و دلچسپی کے ساتھ کوشش کرنا، بروقت کرنا، وقت کی پابندی کے ساتھ اور تحریکی و تنظیمی کاموں یا قومی مفاد کے وقت بھول جانا یا یاداشت سے چلا جانا کیا فکر و نظریہ اور مقصد سے بڑھ کر اپنی ذات سے مخلصی، ایمانداری، ذاتی ترجیحات اور لگن کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا؟
اسی طرح، کیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں فون تک اٹینڈ نہیں کرنا، میسجوں تک کو نہیں دیکھنا یا دیر سے جواب دینا، اس شخص کے وابستہ کام سے عدم دلچسپی اور عدم لگن کی واضح مثال نہیں ہوتا؟ (قطع نظر مصروفیات کے) لیکن جب بار بار مسلسل اور ہر وقت بطور عادت و فطرت تسلسل کے ساتھ ایسے رویے ہوں تو پھر یہ عدم دلچسپی، عدم اخلاص اور لگن کی قلت کی واضح علامات ہوتے ہیں۔ کسی شخص، کسی کام اور کسی ذمہ داری میں اگر انسان کی مکمل دلچسپی ہو تو وہ دن و رات ہر وقت فون اور میسج کے انتظار میں بے چین ہوتا ہے، یہ انسانی نفسیات و فطرت ہے۔ اب بطور جہدکار و ذمہ دار ہم خود اس حوالے سے کہاں پر کھڑے ہیں؟ خود سوچ سمجھ کر نتیجہ اخذ کریں، قومی تحریک، قومی مفاد اور قومی مقصد کے ساتھ ہمارا خلوص، ایمانداری، دلچسپی اور لگن کس سطح پر ہے؟ دعووں، وعدوں، باتوں کے علاوہ حقیقت کا پیمانہ تو یہی پیمانہ ہے۔
یہ دلچسپی سے جڑے چند ایک مثالیں ہیں، جو بادی النظر اتنے عمومی معلوم ہوتے ہیں کہ ان پر پہلا مشورہ، ان علامات کو انسانی کیفیت سے جوڑ کر انہیں نظر انداز کرنے کا دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر باریک بینی سے غور کیا جائے اور اس عدم دلچسپی کے وجوہات کو جاننے کی سعی کی جائے تو یہ واضح طور پر سمجھ آجاتی ہے کہ عدم دلچسپی ہمیشہ جذبی کم آئیگی اور نظریاتی ناپختگی کے کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ جو اپنے ابتدائی ہیت میں عارضی انسانی کیفیت ہی رہتی ہے اگر اس میں تسلسل رہے تو پھر یہ اس رضاکارانہ ڈسپلن کا شیرازہ بیکھیر دیتی ہے۔ یہاں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اگر اسکا بروقت تدارک نا ہو تو پھر یہ چھوت کی مانند ہوتی ہے اور ایک “ڈومینو افیکٹ” پیدا کردیتی ہے۔ اس سارے سلسلے کی جڑیں جذبی کم آئیگی اور نظریاتی خستگی و ناپختگی سے ملتی ہیں، جس پر پھر کبھی بحث ہوگی لیکن اسکی تشخیص و علاج کا طریقہ اور تدارک ذاتی و داخلی قدغنی توازنِ اقدار میں ہے۔
دوسرا ایک مسئلہ ہمارے اندر اپاہچ قبائلی نظام اور روایتی سیاسی نظام سے ماخوذ ہے، جو، ایک انتہائی گھٹیا و پسماندہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ جب آپ وقت کے پابند ہونگے، وقت پر پہنچ جائینگے تو دوسرا سمجھے گا کہ آپ فارغ ہو، کچھ کام نہیں کررہے ہو یعنی اپنے آپ کو خوامخواہ یا مصنوعی طور پر مصروف پیش کرنا اور لیٹ پہنچ جانا یا فون اٹینڈ نہیں کرنا، یہ ثابت کرنا کہ مصروف ہوں، یعنی اپنی سستی، نالائقی، عدم دلچسپی کو مصروفیت کے خوبصورت لبادے میں اوڑھنا اس کے علاوہ ساتھ ساتھ کچھ کاموں کو معمولی کام سمجھ کر نظر انداز کرنا یا اہمیت نہ دے کر اپنے شان کے خلاف سمجھنا۔ یہ رویہ و مزاج خود اپنے اصل ذمہ داریوں اور اپنے اصل مقصد سے دھوکا دہی میں شمار ہوتا ہے حالانکہ معمولی سے معمولی کام، غیر معمولی کاموں کے بنیاد ہوتے ہیں، اگر بنیاد نظر انداز ہوں پھرعمارت یعنی غیر معمولی کاموں کی تعمیر کرنا احمقی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔
اکثر جدوجہد کے ابتدائی دنوں میں جب جہدکار شامل ہوتے ہیں، تو ہر معمولی سے کام اور ذمہ داری کو خلوص اور دلچسپی کے ساتھ کرتے ہیں، آہستہ آہستہ پھر معمولی کاموں کو کام نہیں سمجھتے ہیں، خود کو کام سے بڑا سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ جدوجہد میں کوئی بڑا نہیں ہوتا ہے۔ سب سے بڑا خود جدوجہد ہوتا ہے اور اسی جدوجہد کے بدولت سب بڑے احترام و عزت کے مالک ہوتے ہیں، جب جدوجہد کے معمولی اور غیر معمولی کاموں کو سرانجام دینے کے بجائے ہم نظر انداز کریں اور اہمیت نہیں دیں، پھر ہمارا جتنا ہی بڑا بت ہو، ماضی میں قربانیاں ہوں محنت ہو، وہ سارے کے سارے ہواؤں میں تحلیل اور ضائع ہونگے، جدوجہد ہمیشہ صرف ماضی کا داستان نہیں ہوتا بلکہ جہد مسلسل کا نام ہی، تا مرگ تسلسل کے ساتھ جدوجہد ہے۔ اور جہد سے منسلک معمولی و غیر معمولی کاموں کو سرانجام دینے کے ساتھ جذبہ، دلچسپی، قربانی، محنت و مشقت، اصل جدوجہد کا روح ہوتا ہے۔
ماضی پر صرف تکیہ کرنا ایسا ہے کوئی مسلمان اگر 40 سال پانچ وقت نماز پڑھے، روزہ، ذکوات، حج، تلاوت سب کچھ کرے، پھر بس کرجائے اور یہ دلیل پیش کرے کہ اسلام کے لیے میں پہلے بہت قربانی دے چکا ہوں، پھر یہ منطق خود من گھڑت ہوگا، ماضی کام نہیں دیگا، پھر آپ سچے مسلمان نہیں ہونگے اسلامی تعلیمات کے مطابق۔
ایک غلطی تحریکی و انقلابی تنظیمی کارکنان اکثر کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ کچھ وقت کے بعد وہ تحریک میں اپنے رضاکارانہ خدمات اور ایک سرکاری نوکری کو نفسیاتی طور پر ایک طرح سمجھ کر گڈ مڈ کرتے ہیں۔ تحریک میں ریٹائرمنٹ اور پینشن نہیں ہوتا بلکہ آخری سانس تک جدوجہد جاری رہتی ہے۔ تحریک میں تنخواہ نہیں ہوتی بلکہ تحریک اپنے حاجت کے مطابق اگر ضروریات زندگی پورا کرسکا تو کرتا ہے، کیونکہ یہاں آپ کسی اور کیلئے کام نہیں کررہے ہوتے کسی اور کے ملازم نہیں ہوتے، یہ آپکا اپنا کام ہوتا ہے۔ تحریک میں سینیارٹی اور گریڈ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ نہیں بڑھتے، بلکہ یہاں صلاحیت اور ذمہ داری اٹھانے کی سکت معیار ہوتا ہے۔ تحریک میں سرکاری نوکری کی طرح ایک کام افسر کا کام اور دوسرا کام چپڑاسی کا کام نہیں ہوتا، سب کے سب، چھوٹے بڑے ضروری کام ہوتے ہیں، جو مل کر، جڑ کر، تحریک کو ہیت فراہم کرتے ہیں۔ اس لیئے قطع نظر وضع کردہ و تفویض کردہ ذمہ داریوں کے، ہر کام سب کا کام ہے، کسی کام میں کوئی عار نہیں۔ کوئی کمانڈر چائے پانی کا بندوبست کرسکتا ہے اور ایک نوخیز کارکن میں صلاحیت ہے تو وہ ایک پیچیدہ مسئلے کا تصفیہ کرسکتا ہے۔
انقلابی لیڈر ماوزے تنگ خود جب کیمپ کے لیے راشن منگواتا تھا، جاتے ہوئے سامان کا لسٹ چیک کرتا تھا، واپس آتے ہوئے سامان اور لسٹ چیک کرتا تھا، کیا یہ معمولی کام تھا یا حقیقی ڈسپلن و اصول اپنے کام مقصد اور ذمہ داریوں کے ساتھ مکمل دلچسپی اور ایمانداری تھا؟ چے گوہر پہلے پہل دوائیوں کے ڈبے اٹھاکر زخمی و بیمار دوستوں کا علاج کرتا تھا، انقلابِ کیوبا کے بعد وہ مزدوروں کے ہمراہ اینٹیں بھی لگاتا تھا، دلچسپی و خلوص کے ساتھ کیا یہ معمولی کام تھا یا اپنے کام اور مقصد سے عشق جنوں اور دلچسپی تھا؟
جب تک ہم قومی آزادی کی جدوجہد میں تمام ذمہ دار و جہدکار، قوم و وطن، تحریک، تنظیم اور جنگ کی صرف اور صرف انتہائی عاجز خادم و سپاہی عملاً نہیں بنیں گے۔ اگر وڈیرہ، جاگیردار، نواب، سردار، ملک، میر و معتبر، ٹکری، بیوروکریٹ، روایتی و پاکستانی سیاستدان وغیرہ والی جراثیموں کے اثرات ہمارے اندر ہونگے، اس وقت تک ایسے غیر انقلابی، غیر تنظیمی اور غیر تحریکی رویے موجود ہونگے اور ان رویوں کا تحریک کبھی بھی متحمل نہیں ہوگا۔ یہ رویے تحریک و تنظیموں کے لیئے زہرقاتل اور زوال کا سبب بنتے ہیں۔
ذہنی شعوری و علمی تربیت کے ساتھ ساتھ ایسے غیر انقلابی و غیر تنظیمی رویوں کے اوپر ہر سطح پر بے رحمانہ تنقید کرکے ان کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگا، ایسے رویے تحریک کو کبھی بھی کامیابی و ترقی سے ہمکنار نہیں ہونے دینگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔