بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ اور ملازمین پر تشدد اور گرفتاریوں کو ریاستی جبر کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ روز اول سے ریاست کی یہی کوشش رہی ہے کہ وہ بلوچ طلبہ کو تعلیم سے دور رکھے اسی لیے تعلیمی اداروں میں نااہل اور کرپٹ لوگوں کو بٹا کر تعلیمی اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ بولان میڈیکل یونیورسٹی کی خستہ حالت ہمارے سامنے ہے کہ جب سے اس نااہل وائس چانسلر کو تعینات کیا گیا ہے تب سے طلبہ روڈوں پر ہیں اور یونیورسٹی کو تالا لگا دیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے بلوچ طلبہ کے خلاف ریاستی جبر، ظلم اور بربریت جاری ہے کئی طلبہ اور ان کے لیڈران چیئرمین زاہد بلوچ، زاکر مجید بلوچ سمیت لاپتہ ہیں اور کئی طلباء کو لاپتہ کرکے ان کے مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا چکی ہے جن کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ بلوچ طلبہ کو تعلیم اور سیاست سے کنارہ کش کریں تاکہ مزید ریاستی استحصال کو دوام بخشا جائے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ طلبہ کو اپنے اندر اتحاد اور یکجہتی پیدا کرکے اپنے اجتماعی مفادات کے لیے منظم ہوکر جدوجہد کرنا ہوگا۔ ریاست گذشتہ ستر سالوں سے بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے اور فکری حوالے سے پسماندہ رکھنے کے لیے مختلف سازشیں آزما رہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ریاست نے تعلیمی اداروں کے اندر اپنے ایجنٹ تعینات کیے ہیں ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ ریاستی بیانیہ کو جائز قرار دے کر بلوچ قوم خاص کر طلبہ کے خلاف پالیسیاں بنانا جس طرح اس وقت اعلی تعلیمی اداروں میں گورنر اور بولان میڈیکل کالج میں وائس چانسلر کر رہا ہے ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے بلوچ قوم پرستی کی سیاست کو کس طرح کاؤنٹر کیا جائے اور ایسے پالیسیاں بنایا جائے جس کی وجہ سے بلوچ طلبہ تعلیم سے محروم رہے۔