شہید شفیع بلوچ سے وابستہ یادیں
تحریر: چاکر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کافی عرصے سے شہید شفیع بلوچ کی شان میں کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن مجال ہے کہ قلم ہاتھ کا ساتھ دے، جب بھی کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں ہاتھ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، ایسے لگتا ہے کہ بلکل ہاتھوں میں جان ہی نہیں کیوںکہ آج میں ایک ایسے شخصیت کے بارے میں لکھنے جارہا ہوں، جس نے تحریک سے قربت اور سرزمین سے وفاداری کو ہمارے دلوں میں اتارا اور ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہم غلام قوم ہیں اور غلام قوم کی کوئی وجود، کوئی پہچان نہیں ہوتا۔ آج اگر ہم اپنے حق سرزمین مادر وطن بلوچستان کے لیے نہیں اٹھیں گے تو سرزمین ہمیں قطعاً معاف نہیں کرے گا، کیوںکہ اگر ایک ماں بچے کو 9 ماہ تک اپنے پیٹ میں سنبھالتا ہے تو ان کے قدموں تلے جنت فرض ہوتی ہے، کیا یہ سرزمین ہمیں روز اول یعنی پیدائش کے دن سے لے کر ہمارے مرنے تک اس پر رہنے کا حق نہیں دیتا ہے تو کیا اس کا ہمارے اوپر کوئی حق نہیں ہوتا ؟
آج شاید کہیں کوئی غلطی، کمی یا کوتاہی نہ رہے جائے کہ میں شہید شفیع بلوچ کے خدمات، شان و شوکت میں نا انصافی کروں، شفیع بلوچ نے نہ صرف اپنے خاندان قبیلے میں اپنے لیے ایک مقام بنایا بلکہ اہل علاقے کے لیے بھی ایک واضح مثال کے طور پر ثابت ہوئے، شہید شفیع بلوچ ایک چراغ کے مانند تھے، جس کی روشنی وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ سے پورے شہر کو فیضیاب کرتا گیا ۔
شفیع بلوچ کا ایک ایسے علاقے میں جنم ہوا تھا جہاں لفظ شعور کا نام و نشان دور دور تک موجود نہیں تھا، آج بھی مجھے یہ سوال سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ جہاں لالچ، حرس، ذاتی خواہشات اور مفادات کا معیار زیادہ ہو وہاں سے ایسے باشعور نوجوان کا جنم اور اس معاشرے کے تمام عیش و عشرت کو چھوڑ کر مادر وطن کے لیے قربان ہونے تک کے سفر کو کیسے مکمل کیا ہوگا۔
جی ہاں! میں اس خوف زدہ معاشرے کی بات کر رہا ہوں جہاں اپنے پہچان کو ظاہر کرنے کو ایک گناہ سمجھا جاتا ہے، یہاں میں ایک بار پھر اس سوسائٹی کی بات کرنا چاہوں گا، جہاں اپنے حق کی بات کرنے کو ایک خوف سمجھا جاتا ہے، شفیع بلوچ کا اسی معاشرے میں جنم ہونا تھا، جہاں لفظ شعور کی کوئی وجود ہی نہیں تھا، یہ وہ معاشرہ تھا جہاں دور دور تک نہ کوئی گل خان نصیر تھا نہ کوئی عطا شاد بلوچ اور نہ کوئی بابو نوروز زکرزئی جیسے پیر مڑد کی قربانی کی مثالیں، یہاں سرداری نظام اور انگریز کی بگھی کھینچنے کی فخریہ مثالیں تھیں، یہ وہ معاشرہ ہے جہاں آج بھی سرکار، ریاست اور سردار کی غلامی کو اپنے لیئے ایک اعزاز کی بات اور فخر سمجھا جاتا ہے۔
شہید شفیع بلوچ نے سابقہ چیئرمین بی ایس او آزاد سنگت بشیر زیب بلوچ، اسیر رہنما سنگت ذاکر مجید بلوچ، شہید سنگت ثناء بلوچ کے ساتھ ہمگامی اختیار کر لیا، شفیع بلوچ شاید خوش قسمت تھے جس منزل کی اسے تلاش تھی، اسی منزل تک سفر کرنے والے ہمراہ اور دوست اسے مل چکے تھے، اب شفیع بلوچ کو اپنی قابلیت مخلصی اور ایمانداری کو مادر وطن کے لیے ظاہر/ثابت کرنا تھا۔
شفیع بلوچ اپنے علاقے کے واحد وہ شخصیت تھے، جو آخری وقت تک سنگتوں کے ساتھ رہے اور وطن سے محبت مخلصی اور ایمانداری اور وفاداری کی۔ ایک بار اغوا ہونے کے بعد وارننگ دے کر اس شرط پر بازیابی دی گئی کہ وہ تحریک سے دور رہیں گے۔ شفیع بلوچ کو جب پہلی بار مسلح افراد نے بولان میڈیکل کالج کوئٹہ کے باہر سے گرفتار کرکے لے گئے تھے تو تین ماہ تک اسے اذیتیں دے کر خوف و ہراس کا شکار کرنے کی ناکام کوشش کی گئی، مگر مجال ہے شفیع بلوچ اپنا قبلہ تبدیل کر کے دشمن سے ہاتھ ملائے۔ سنگت شفیع بلوچ جب بازیاب ہوا تو اس کے رہائی کی مبارک بادی پر اس کے گھر تشریف لے گئے تو شہید سنگت شفیع بلوچ کے چہرے سے یہ بلکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ خوفزدہ یا اسے اتنے ٹارچر کرکے چھوڑ دیا گیا ہے۔ شہید شفیع بلوچ نے جب حال احوال میں اپنے تاریخی الفاظ بیان کئے وہ جو آج تک مجھے ہمت دیتے ہیں۔
” سنگت دشمن نے مجھے کافی ٹارچر کرنے کی کوشش کی ہے، سردی میں ہفتوں تک بغیر کپڑوں کے باہر رکھ کر سزا دیا جاتا، مجھے اس بار وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا کہ میں ریاست کے لیے کام کروں اور ان کے لیئے مخبری بھی کروں، تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ فلیٹ، گاڑی اور تنخواہ کی آفر بھی دی گئی ہے، تو وہاں بیٹھے ایک دوست نے مذاق میں شہید سے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ یار شفیع تو کیا سوچا ہے آفر قبول کی ہے؟ اب تحریک سے کنارہ کشی اختیار کر لو گے؟ لیکن شفیع بلوچ مزاجاً جذباتی تھے، اسی جذباتی الفاظ میں کہتے ہیں یار سرزمین بلوچستان ماں کے مانند ہے، کیا میں اپنے ماں کا سودا کر سکتا ہوں؟ مجھے وطن کے لیے قربان ہونا ہے وہ میرے لیے اعزاز کی بات ہوگا “
اس دن مجھے دل ہی دل میں حوصلہ بھی مل رہا تھا کہ آج ہم اکیلے نہیں بلکل شفیع نہیں بدلے ہم اپنے قدم کیسے پیچھے کر سکتے ہیں، مجھے آج اس بات پر بھی فخر محسوس ہورہا ہے کہ میرا لال شفیع کافی بہادر ہوا ہے اور وہ شعور کی اس انتہاء تک پہنچ گیا ہے جہاں خوف کا خاتمہ ہوتا ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں شعور خوف کو مات دیتی ہے۔ شائد آج ہمارے درمیان میں سنگت شفیع بلوچ، جیسے دوست موجود نہیں ہوتے، آج شاید میں قومی تحریک کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتا، شاید آج میں بھی سرکاری غلامی، لالچ، ہرس، ذاتی خواہشات کے پیچھے خوار ہوتا۔
آج بحیثیت ایک جہد کار ایک سیاسی کارکن ایک طالب علم اپنے معاشرے کا ذمہ دار فرد کے طور پر شہید شفیع بلوچ کے دیئے گئے درس، پیغام کو میرا اور آپ کا فرض بنتا ہے کہ اسے آگے لے جائیں، یہ ایک قومی پیغام ہے، جسے اب ہمیں آگے لے جانا ہے کیوںکہ شہید شفیع بلوچ ہمیں راستہ دکھا کر اپنا فرض پورا کرکے جسمانی طور پر ضرور ہم سے جدا ہوئے ہیں لیکن اس کی دیئے گئے حوصلے، تربیت اور ان کے فلسفے آج بھی ہمیں کافی بیداری دیتے ہیں، شفیع بلوچ نہ صرف ایک فرد بلکہ ایک سوچ اور ایک فکر اور نظریے کا نام ہے، جس نظریے کا مقصد سرزمین کی آزادی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔