بی ایس او کے چیئرمین نزیر بلوچ نے گوادر پریس کلب کی ہال میں بی ایس او اور بی این پی کی جانب سے منعقدہ شہدائے جیونی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج سے تینتیس سال پہلے جیونی کے لوگوں نے اپنے بنیادی حقوق کی خاطر پرامن ریلی نکالی تھی لیکن بنیادی حقوق ہمیں تین لاشوں کی صورت میں دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ معصوم یاسمین، ازگل اور غلام نبی دنیا کے ان شہداء میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے حقوق کی خاطر جانیں دی ہیں۔ آج کا دن جیونی اور بلوچستان کے عوام کی زخموں کو دوبارہ تازہ کرتی ہے۔ تینتیس سال گزرنے کے باوجود یہاں کے لوگ پانی سمیت بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ہم بلوچوں کو اہل اقتدار والے جاہل گوار اور ان پڑھ کہتے ہیں لیکن کم از کم وہ خود انسانیت کی بیخ کنی نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ بی ایس او کے نوجوانوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ فون کالز آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو فنڈنگ کون کرتا ہے۔ بی ایس او کو بلوچ قومی ترانہ بجانے کی اجازت نہیں ۔ ہرطرف خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔
انہوں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ منشیات سے بلوچستان کے نوجوان تباہ ہورہے ہیں۔ نوشکی کالج کے طالبعلم سمیع اللہ مینگل کو منشیات فروشوں نے بے دردی سے قتل کردیا۔ تعلیمی ادارے تباہ حالی کی طرف جارہے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل نے سب کا چہرہ بے نقاب کردیا۔ تعلیمی امرجنسی کے دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔ یونیورسٹی میں ہماری بچیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ نوجوان شعوری و عملمی ہتھیار سے تمام منصوبوں کو ناکام بنائیں۔