بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونی گوتریس کے پاکستان سے متعلق بیان (ٹوئیٹ) پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکریٹری جنرل کا بیان نہ صرف ان کے منصب بلکہ اقوام متحدہ کے بنیادی اغراض و مقاصد کی نفی کرتا ہے۔ بیان میں انہوں نے پاکستان کے زیر قبضہ بلوچ، سندھی اور پشتونوں کی موقف، مسائل، پاکستان کے ہاتھوں جاری نسل کشی کو یکسر نظر انداز کیا۔ یہ ان کی غفلت اور پاکستان کی جرائم پر پردہ پوشی کے مترادف ہے۔ گویا انہوں نے پاکستان کو ان مظالم میں استثنیٰ دے دیا۔ ستر کی دہائی میں بنگالیوں کی نسل کشی اور جنگی جرائم کے بعد اس طرح کی استثنیٰ نے پاکستانی فوج کو بلوچستان میں نسل کشی کی اجازت پہلے ہی دیدی ہے۔ افسوس اس بات کی ہے کہ جدید دور میں بھی قوموں کو غلام اور ان کی سرزمینوں کو کالونی بنا کر رکھنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ حالانکہ فرانس کے صدر ایموئیل میکرون نے گذشتہ مہینے افریقی ملکوں کا دورہ کرکے فرانسیسی کالونی کی آخری نشانی فرانک نامی کرنسی کا نام اور کرنسی تبدیل کرنے میں مدد کرکے مہذب دنیا کیلئے مثال قائم کی۔ دوسری جانب پاکستان جیسے ممالک کو اقوام متحدہ کی جانب سے استثنیٰ بلوچ، پشتون اور سندھی نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ انہوں نے یہ بیان دے کر پاکستان کے واضح اور ریکارڈ پر موجود جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کی دانستہ کوشش کی ہے، جس کی انہیں اقوام متحدہ کے رہنما اصول کسی بھی عنوان پر اجازت نہیں دیتے۔
خلیل بلوچ نے کہا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے ادارے اور قوموں کی انجمن کے سربراہ کی جانب سے پاکستان کے حالات جاننے سے قبل ایسی بیان کی ہمیں قطعاً توقع نہیں تھی۔ بلوچ سمیت تمام مظلوم اور محکوم اقوام امید کررہے تھے کہ سیکریٹری جنرل اپنی منصب کے تقاضے مدنظر رکھ کر پاکستان کے ہاتھوں جنگی جرائم کے شکار قوموں کی دادرسی کریں گے اور مصدقہ اور روز روشن کی طرح واضح ثبوتوں کی بنا پر پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لیجانے کے لئے پہلا قدم اٹھائیں گے۔ لیکن موصوف نے پاکستان سے متعلق اپنی غفلت، لاعلمی اورمظلوم دشمنی کا ثبوت دے کر اپنی منصب اور دورے کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ میں تمام مظلوم قوموں سے اپیل کرتا ہوں کہ اقوا م متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اس بیان پر ان سے ضرور سوال کریں۔ گوکہ ہم ایک تسلیم شدہ ریاست تو نہیں مگر اقوام عالم کے صف میں زندہ اور اپنی آزادی کے حصول کے لئے برسرپیکار قوموں میں شمار ہوتے ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا اگر سیکریٹری جنرل کا دورہ محض افغان مہاجرین سے متعلق تھا تو انہیں صرف وہاں تک محدود رہنا چاہئے تھا۔ لیکن انہوں نے پاکستان پر مجموعی بیان دے کر اپنی جانبداری کا برملا اظہار کیا ہے۔ اگر مہاجرین کی بات کی جائے تو افغان قوم کا لاکھوں کی تعداد میں قتل ہونا اور مہاجر بننے کی وجہ خود پاکستان کی دہشت گرد نواز پالسیاں ہیں۔ ان کی میزبانی پاکستان نہیں بلکہ بلوچ اور پشتون اپنی اپنی قومی سرزمینوں پر کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا سیکریٹرل جنرل کو ایسی غیرذمہ دارانہ بیان دینے سے قبل زیادہ دور نہیں مگر گذشتہ دو عشروں کی تاریخ ضرور سامنے رکھنا چاہیے تھا۔ کیا سیکریٹری جنرل اس بات سے بھی لاعلم ہیں کہ دنیا کے مطلوب ترین دہشت گرد اسامہ بن لادن سے لے کر مولوی منصور اختر کہاں مارے گئے؟ القاعدہ اور دوسرے عالمی دہشت گرد تنظیموں کے سرغنہ کہاں سے پکڑے یا مارے گئے ہیں؟ ان تمام دہشت گردوں کو پاکستان نے نہیں بلکہ بندوبست پاکستان میں کسی دوسری ریاست نے گرفتار یا ہلاک کیا ہے۔ کیا سیکریٹری جنرل اس بات سے لاعلم ہیں کہ پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کو اب تک کیوں مطمئن نہیں کرپایا ہے اور کن وجوہات کی بنا پر پاکستان اب تک ”گرے لسٹ“ میں ہے اور ”بلیک لسٹ“ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اگر واقعتاً یہ حقائق کوئی وقعت نہیں رکھتے ہیں تو یہ مظلوم اور محکوم قوموں کے ساتھ تاریخ میں بدترین مذاق کے طور پر درج ہوگا۔