سمی و دودا سے ماہ رنگ و یارمحمد تک
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
جس قومی جذبے کو حرف عام میں بلوچی غیرت و عزت کہا جاتا ہے اور اجہلان جاکر اسے کلی طور پر عورت سے منسوب کردیتے ہیں، درحقیقت بلوچی غیرت جذبہ حب الوطنی اور قومی دفاع ہے۔ وطن سے عشق، اسکا دفاع اور اس وطن پر آباد لوگوں کے دفاع کیلئے سردھڑ کی بازی لگانا ہی بلوچی غیرت کا حرفِ اول ہے۔ اور جو اس شرطِ اول پر آمادہ ہے، وہی غیرت مند بلوچ ہے۔ اور بیغرتی اور کچھ نہیں، سوائے اس روش سے متضاد چلنے کے۔ یہ قومی یا بلوچی غیرت کی تعریف کسی ایک سردار و نواب نے نہیں کرکے دی بلکہ یہ ہمارے اجتماعی قومی شعور کا صدیوں کا نچوڑ ہے۔ اب حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک سردار جو نوجوانی سے لیکر آج تک اس قوم پر قابض پنجابی چوہدریوں، جاگیرداروں اور فوجیوں کی خدمت گذاری، جی حضوری میں گذار کر، اپنی سرزمین پر دشمن کے قبضہ گیریت کو جی و جان سے قبول کرچکا ہو بلکہ غلامی کو تقویت دینے اور اپنے قوم پر ہر ظلم و ستم، لوٹ ماری میں برابر شریک رہا ہو۔ وہ سردار جو بذات خود چوری، ڈاکہ زنی، لوٹ ماری، بھتہ خوری، اغواء کاری جیسے قبیح اعمال میں شریک و سرپرست رہا ہو۔ وہ سردار جسے کہیں اگر پیسہ نظر آئے، تو وہ اسکا قبلہ بن جاتا ہے۔ جو کبھی بھٹو، کبھی نواز، کبھی عمران، کبھی فوج، کبھی مولوی اور کبھی کینٹ کے باہر کسی میجر و صوبیدار کی جی حضوری کرتے نظر آئے۔ وہ سردار یار محمد جس نے بلوچ وطن کے دفاع میں انگلی تک نہیں اٹھایا ہو، لیکن خاندانی دشمنی کے نام پر سینکڑوں بلوچوں کے خون سے اسکے ہاتھ رنگے ہوئے ہوں، وہ سردار یار محمد کب اور کیسے بلوچ غیرت کا مثال بن گیا، اور وطن کی دفاع میں شہید ہونے والے ایک باپ کی بیٹی، ایک بہادر، جرات مند، بلند آواز بلوچ بیٹی، ماہ رنگ بلوچ کو بلوچی غیرت کا سبق پڑھانے لگا؟
یہ وہی سردار ہے جو ایک غریب بلوچ کا اپنا راستہ کاٹنے تک کو اپنی بے عزتی تصور کرکے اسے سزا دلواتا ہے، اور دوسری طرف اس سردار کو اس وقت بالکل بھی بے عزتی نظر نہیں آتی، جب بھرے محفل میں میڈیا کے سامنے عمران خان اسے کرسی پر بٹھانے کے بعد فوراً واپس اٹھنے کا حکم دیتے ہیں، اور جناب مدرسے میں قاعدہ پڑھنے والے طالب کی طرح چپ چاپ اٹھتے ہیں، اور ہاتھ باندھ کر ایک کونے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کوئی مسئلہ نہیں جناب، کوئی بے عزتی نہیں ہوئی۔ یہ سب عزت، غیرت، بہادری، معتبری، میری اور نوابی کے زمرے میں شمار ہیں، جب تک پیسہ ملے، کرسی ملے مائی باپ سب اچھا ہے۔ عزت و غیریت آنی جانی شے ہے، اصل چیز پیسہ ہے۔ عزت و غیرت کا یہ انوکھا معیار اور یہ تعریف، ایسے بِکے اور جھکے ہوئے، بھیک منگے سردار و نواب متعارف کرچکے ہیں۔
جس طرح مولوی، پادری، پنڈت وغیرہ حقیقی دین، مذہب اور دھرم کو مسخ کرکے، انسان کا بلا واستہ تعلق اس سے توڑ کر خود بیچ میں ایجنٹ بن کر مذہب کو صرف کمانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اسی طرح یہ سردار و نواب، میر و معتبر حقیقی بلوچی غیرت و بلوچی کوڈ آف آنر کو مسخ کرکے اپنے دوغلے و مصنوعی بلوچی روایات، عزت و غیرت اور بہادری کے معیار لاچکے ہیں، اور اسے اپنے لیئے طاقت و دہندے کا زریعہ بناچکے ہیں۔ بد نصیبی کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے پسماندہ ذہنیت کے مالک بے شعور لوگ کسی حدتک انکے جعلی تعریف و معیار قبول کررہے ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ میڈیکل کی ایک طالب علم ہے، وہ ایک ڈاکٹر بنیگی، وہ اپنے قوم کیلئے، انسانوں کیلئے، انسانیت کیلئے ایک مسیحاء ہوگی، لیکن ہمارے غلامانہ سماج نے شروع دن سے ماہ رنگ کو پڑھنے اور کلاس روم میں بیٹھنے کا کم سڑکوں، پریس کلب اور مظاہروں میں دکھائی دینے کا زیادہ موقع فراہم کیا۔ ایک باشعور باصلاحیت بہادری بیٹی میدان میں نکل کر اپنے ذاتی مطالبات کی نہیں بلکہ تمام طلبہ و طالبات کے جائز حقوق کی بات کررہی ہے۔ وہ بھی ایک غیر فطری و سفاک ریاست کے اندر رہتے ہوئے بھی فطرت و قانون کے تحت مطالبات کی بات کررہی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے تھی کہ ہمارے قوم کی بیٹی اتنی باشعور و با صلاحیت ہے کہ اپنے حقوق جانتی ہے اور اپنے حقوق کی بات کرسکتی ہے۔ مگر اس اپاہچ سرداری نظام کے اپاہچ سرداریار محمد رند انہیں یہ کہہ کر چپ کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر آپ عزت والی ہوتی تو روڈوں اور سڑکوں پر نہیں ہوتی۔
ستر سالوں سے دیا گیا یہ زبان اور یہ سوچ قابض پنجابی کی تخلیق ہے، جسکا مقصد و مراد حقیقی بلوچیت کو مسخ کرکے ان بکے ہوئے نامراد سردارں کے ذریعے پنڈی میڈ بلوچیت نافذ کرنا ہے، ایسی بلوچیت جو اپنے تئیں غلامی جذب کرسکے، کیونکہ حقیقی بلوچیت کے سانچوں میں غلامی نہیں ڈھل سکتی۔
یارمحمد رند جیسے ریاست کے سینکڑوں کاسہ لیس دشمن کا یہ سوچ لیکر، پھیلا کر ہماری ماں بہنوں کو تعیلم و شعور اور جدوجہد سے دور رکھنے اور بیگانہ کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں، جو غلامی و محکومی کو دوام دینے اور مضبوط کرنے کا ایک مضبوط حربہ ہے یعنی ایک تیر سے دو شکار۔ ایک طرف یہ سوچ تخلیق کرکے یارمحمد جیسوں کو رٹانا اور انکے ذریعے یہ نافذ کرنے کی کوشش کرنا اور دوسری طرف،یہ برملا کہنا کہ جی! ہم تو تعلیم و ترقی دینا چاہتے ہیں یہ انکے اپنے سردار و نواب تعلیم کے دشمن ہیں۔ یعنی یارمحمد جیسوں کو خود علم و شعور اور تعلیم کے سامنے رکاوٹ و دشمن بناکر پھر واپس ان کے گلے میں بھی گھنٹی باندھ کر یہ کہنا کہ جی دیکھو جب طلبہ احتجاج کرتے ہیں تو یارمحمد ان کو کہتا ہے یہ بےعزتی کاکام ہے۔ اس طرح ان کے سردار پسماندہ ہیں۔
کیا مولویوں کی طرح عزت و غیرت، بہادری کے ٹھیکیدار سردار و نواب ہیں؟ جس طرح مولوی مذہب و دین کے ٹھیکیدار ہیں؟ کیا تاریخی طورپر بلوچ کوڈ آف آنر میں عزت، غیرت و بہادری کا جو معیار تھا اور ہے وہ یار محمد جیسے نام نہاد مسلط کردہ سردار پورا کررہے ہیں یا پورا کرچکے ہیں؟
بلوچ روایات و اقدار واضح ہیں، تاریخ ثابت کرچکی ہے کہ جب سرزمین پر اغیار کا یلغار یا قبضہ ہو تو قبضہ گیریت کے خلاف لڑنا ہوگا، جنگ کرنا ہوگا، شہید خان محراب خان بننا ہوگا، اکبرخان و بالاچ خان بننا ہوگا، نوروز خان و دوست محمد بننا ہوگا۔ اور آپکی بلوچ بہن و بیٹی کا باہر نکلنا بیغیرتی نہیں بلکہ بلوچ روایات میں غیرت کا اعلیٰ ترین اعزاز ہے۔ جس طرح بی بی حاتوں و بانڑی ہاتھوں سے چوڑیاں نکال کر میدان میں نکلیں تھیں، اور بلوچ روایات میں، وہ شیر زال، بلوچ غیرت، حرمت اور عزت کے استعارے بن چکے ہیں۔
جب کسی بلوچ بیٹی کیساتھ سمی کی طرح ظلم و نا انصافی ہو، اور وہ گھر چھوڑ کر انصاف طلب کرنے کیلئے آپکے پاس آئے تو پھر بلوچی غیرت کے تقاضے کے مطابق آپ کو دودا گورگیج بننا ہوگا نا کہ یار محمد۔ جب آج کے سمی، ماہ رنگ کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے تو آپ اگر دودا نہیں بن سکتے ہو، تو کم ازکم دشمن کی زبان استعمال کرکے اس کو عزت کا طعنہ نہیں دینا چاہیے تھا، حق تو آج ماہ رنگ کا بنتا ہے کہ یہ طعنہ آپ کو دیتی کہ آپ کیسے اور کہاں سے چاکر و گہرام اور دودا کے نسل سے ہو؟ آپ کی عزت کہاں چلی گئی کہ ہم روڈوں اور سڑکوں پر اگئے ہیں؟ آپ دشمن کے ساتھ کھڑے ہو، عزت و غیرت آپ بیچ چکے ہو اور طعنہ ہمیں دے رہے ہو؟ ہم تو عزت و غیریت و ننگ و ناموس کے پاسبان تھے اور پاسبان ہیں۔
یہ بات بلوچ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب دشمن کے خلاف جنگ ہو، سرزمین کی آزادی کی جنگ ہو، جو بھی اس جنگ میں شریک نہ ہو یہ بے غیرتی ہے۔ اصل بے عزتی و بیغرتی یہی ہے کہ جو اس جنگ میں گامے درمے سخنے شامل نہ ہو اور دشمن کی صف میں کھڑے ہوکر یارمحمد خود اس کیٹگری میں شمار ہوتا ہے۔
فینن کہتا ہے کہ ” صرف اعلیٰ نسل ہی وطن کیلئے لڑتا ہے، اور جو وطن کیلئے لڑتا ہے صرف وہی اعلیٰ نسل ہے” ، ذات پات کے نام پر انسانوں کی سماجی درجہ بندی ایک قبیح عمل ہے، لیکن پھر بھی بلوچ سماج میں جو آج خود کواعلیٰ ذات کہہ کر گھومتے پھرتے ہیں، اسکے تاریخی پس منظر میں جاکر دیکھیں، تو وہ کسی نا کسی طرح کسی ایسے شخص کی نسل سے ملیں گے جو اس وطن کے حصول و دفاع کیلئے لڑا تھا، اسی کے بنا پر آج بنا کردار کے بھی اسکی نسل خود کو اعلیٰ کہتی ہے۔ لیکن وقت بدل رہا ہے۔ پرانے تمام معیار مٹ رہے ہیں اور نئے معیار بن رہے ہیں۔ وطن کی جنگ جاری ہے۔ اب ماضی نہیں یہ جنگ تعین کریگی کہ اعلی نسل کون ہے اور کم نسل کون، غیرت مند کون ہے اور بیغرت کون۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔