ساختہ مقیاس
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
کس حد تک اس دلیل میں صداقت ہے کہ ہر پڑھا لکھا انسان عالم نہیں ہوتا؟ اور ہر ان پڑھ انسان جاہل بھی نہیں ہوتا؟ دانائی خود ایک علم و شعور ہے، دانائی کہاں سے اور کیسے انسان میں پایا جاتا ہے؟ فلسفہ، نفسیات و سائنس اس بابت کوئی مطلق رائے نہیں دے سکا کہ دانائی کا ماخذ کیا ہے۔ کیا اسکا اساس تجربہ ہے، جنگ ہے یا عمل ہے؟ اگر عمل ہے تو کونسا عمل؟ گر مصدرِ دانائی سچائی و مخلصی ہے، تو پھر کیا ہر سچا و مخلص انسان عالم یا دانا ہوتا ہے؟
کیا عالم و دانشور اور لکھاری میں فرق ہوتا ہے؟ خیر اسکو چھوڑیں یہ بارہا موضوعِ بحث رہا ہے، پہلے یہ تعین ہو کہ ہمارے سماج میں آخر دانشور کون ہیں؟ دانشوری کا معیار کیا ہے؟ کس کی نظر میں کون دانشور ہے؟ وہ آخر زاویہ نظر کیا ہے؟ اس زاویہ نظر کی دانشوارانہ معیار کیا ہے؟ اس کی اپروچ کیا ہے؟ پھر اگر دانشور لیڈروں کی رہنمائی و نصیحت کرے تو پھر لیڈر کون ہیں؟ لیڈری کا معیار کیا ہے؟
کیا کسی بھی پارٹی، تنظیم، انجمن، یونین، گروپ کے سربراہ و عہدے دار یا ریاستی چناؤ میں جیتنے والے اسمبلی ممبر یا خاندانی وراثت میں سربراہی پر گدی نشین ہونے والے میر، سردار، نواب وغیرہ سارے کے سارے لیڈر ہیں؟ اگر ہاں تو کیسے، کہاں سے اور کب؟ کوئی وضاحت، علمی و ٹھوس دلیل؟ میرے خیال میں علمی دلیل کچھ نہیں محض دعویں اور ان دعوؤں کے اندھے خود کام، مقلد۔ اگر معیار و تعریف کا پیمانہ محض دعویٰ ہی ہوتا تو پھر اس وقت ماشاء اللہ بلوچ قوم میں سینکڑوں و ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لیڈران موجود ہیں، پھر یہ قوم آج قومی نجات سمیت، پوری دنیا میں عظیم سے عظیم تر ریاست کا طرہ لیئے سرفہرست ہوتا نہ کہ بدترین غلامی و محکومی کے دلدل میں دھنسا ہوتا۔
خوامخواہ کی دانشوری و خوامخواہ کی لیڈری کا مرض ہمارے سماج میں اس حد تک جڑ پکڑ چکا ہے کہ اب کینسر سے بڑھ کر کرونا وائرس بن چکا ہے کہ اسکا علاج نظر نہیں آرہا۔ میں اپنے آپ میں، اپنے مخصوص و محدود سرکل میں، بڑا لیڈر و بڑا دانشور بنا پھرتا ہوں، مگر اندر سے کچھ نہیں۔
کچھ سنی سنائی باتیں، رٹتے ہیں، انہیں معیار بناتے ہیں، پھر انہی کو دہراتے ہیں اور اتنا دہراتے ہیں کہ ان پیمانوں کو کسی صحیفے کا حرف آخر سمجھ کر ان پر ایمان لے آتے ہیں۔ مگر آج تک دل دماغ، آنکھیں کھول کر اس جرت کا مظاہرہ ہم نہیں کرسکتے ہیں کہ وسیع ریسرچ و تحقیق کرکے دنیاوی و علمی معیار و تعریف کے مطابق دانشور و لیڈر کا اصل معیار جانیں کہ وہ کیا ہوتا ہے؟
اگرفلسفیانہ اٹکل بازیوں و سائنس کی پیچیدہ پچکاریوں سے دامن بچا کر اپنے سماج کے چہرے کو پڑھتے ہوئے بھی اس معیار کو سمجھنے کی کوشش کرلیں تو یہ کوئی جوئے شیر لانا نہیں ہوگا، ایک سیدھا سادہ اور مختصر معیار و تعریف یہ ہوگا کہ اپنے پسماندہ تباہ حال، غلام و محکوم قوم کو شعور وعلم کی روشنی سے روشناس کرکے، قومی بیداری پھیلا کر، راہ نجات پر قوم کو ایک منظم تحریک و تنظیم میں گامزن کرنا اور اس بابت اپنے کو شعوری و علمی طور پر متحرک و منظم کرکے راغب کرنا۔ خود سچائی و مخلصی، ایمانداری اور بہادری کے ساتھ مکمل بے غرض ہوکر ہر قربانی کیلئے پیش پیش ہوکر سالوں کا ادراک و پیش بینی، دوراندیشی، صبر و تحمل اور اخلاقی اثر و اقدار کا مالک ہوکر مسلسل جدوجہد کو شدت کے ساتھ آگے بڑھانا اور وسعت دینا حقیقی لیڈر کا معیار اور تعریف ہوگا۔
دانشور کسی بھی معاشرے میں علمی طور پر ایک غیر معمولی اور نمایاں کردار کا مالک ہوتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات، دلائل، سوالات اور علمی و عملی کردار سے پسماندہ سماج کے بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیتے ہیں اور راہ نجات کے تحریک کے شانہ بشانہ ہوتے ہیں تب جاکر حقیقی لیڈر کا حقیقی دانشور ہی علمی طور پر راہنمائی کرسکتا ہے۔ دانشور اپنے سماج کا طبیب ہوتا ہے، وہ اپنے سماج کے نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری کی تشخیص کرتا ہے، اور بیماری چاہے جتنی بھی بری ہے، وہ بغیر لگی لپٹے کے اسکا تشخیص بتاتا ہے، اور بتاتا ہے کہ علاج کیسے ممکن ہے۔ اگر سماج کے اس طبیب یعنی دانشور کے صلاحیتوں میں کھوٹ ہوا تو تشخیص درست نہیں ہوتی اور اگر نیت کھوٹ دار نکلا تو پھر بتایا گیا طریقہ علاج کماحقہ نہیں ہوتا۔ اس لیئے دانشور کیلئے صلاحیت و اخلاص دونوں ضروری ہوتے ہیں۔
جب دانشور خود تحریک سے کوسوں دور ہو، تحریک کے ا،ب تک سے واقف نہ ہو، پھر ہوائی تجزیوں اور تبصروں سے علمی راہنمائی ناممکن ہوگا۔
شاید میرا اپنا علمی نقطہ نظر انتہائی ضعیف ہو، میں اس اہل نہیں کہ رہنمائی یا دانش کا پیمانہ متعارف کرنے کا اہل ہوسکوں، لیکن اتنا میں بلا حیل و حجت کے کہہ سکتا ہوں کہ جو تسلیم شدہ رائج الوقت پیمانے ہیں، وہ تمام فریب ہیں۔ انہیں فریب قرار دینے کیلئے مجھے فرداً فرداً بات کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ محض نتائج ہی یہ اخذ کرنے کیلئے کافی ہیں۔ جب قافلہ سالوں سے صحرا میں بھٹک رہا ہو پھر یہ امر رہبری اور قافلے کے رہبر کے چننے کے معیار پر سوال اٹھانے کیلئے کافی ہے۔
محنت، قربانی، مخلصی، عزت و احترم، علم و زانت، شخصیت، شخصیت پرستی، کردار نبھانا وغیرہ اپنی جگہ مسلمہ حقائق، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 70 سالوں سے خطے میں بلوچ، پشتون اور سندھی قوموں کو کس نے اور کب غلامی کی سفر سے راہ نجات، اور قومی آزادی کے حصول کی خاطر ایک منظم و متحرک تحریک کی حتمی شکل دینے میں حقیقی و مثالی تنظیم یا ادارہ دیا؟ جس کے بنا پر ہم اس شخص کو آج لیڈر کہہ سکیں؟
کون دانشور، آج پسماندہ و غلامانہ سماج کو بلاخوف و لالچ، مصلحت پسندی و معاشی، ذاتی، مادی مجبوریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اپنے علمی سوالات، خیالات اور دلائل سے ہلاتے ہوئے تحریک یا جنگ نجات میں عملی طور پرشانہ بشانہ رہا ہے؟
میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب کم از کم اس اکیسویں صدی میں ہم اپنے قوم پر رحم کریں، حقائق کو مسخ اور گڈمڈ کرنے، تصوارتی و ہوائی اور جذباتی مشگافیاں قوم پر تھونپنے کے بجائے، اس قومی بقاء و فنا کی جنگ میں سب کو اپنے بساط کے مطابق جنگ میں اپنا کردار نبھانے کے ساتھ قوم کو سچائی اور حقائق کی بنیاد پر علم و آگاہی اور شعور بخشنا ہوگا کہ ہم بحثیت قوم آج ایک خطرناک موڑ پر کھڑے ہیں، اگر خاموش رہینگے، تو یہ مقام ہماری اجتماعی و قومی موت ثابت ہوگی۔
جب اجتماعی و قومی موت ہوگی، پھر نہ لیڈر، نہ دانشور، نہ قلمکار، نہ سفارتکار، نہ شاعر، نہ ادیب، نہ سیاسی و انسانی کارکن رہیگا اور نہ بحث و مباحثہ، و تنقید بچے گی۔ صرف قومی فنا ہوگا، تو فنا سے بچ کر بقاء صرف اور صرف قومی جنگ میں ہے۔ اور جنگ کی شدت میں ہے اور شدت منظم و متحرک تنظیم و تحریک میں ہے اور متحرک تنظیم و تحریک کی تخلیق ہمیشہ لیڈر اور اس کے ٹیم میں ہوتا ہے اور لیڈر ہی کے علمی، عملی راہنمائی میں جنگ کے ساتھ ساتھ شانہ بشانہ دانشوروں کا کردار ہوتا ہے۔
ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کہاں جارہے ہیں؟ کیا سوچتے ہیں، کیا سمجھتے ہیں؟ یہ وہ ادراک ہے، جس کے بنیاد پر اس جنگ یا تحریک کی بنیاد رکھی ہو تو پھر خستگی سے بچائے رکھے گی۔ خیر جنگ جاری ہے، ہارے نہیں ہیں، امید زندہ ہے کہ جنگ کے شعلوں سے وہ معیار، وہ تعریف جو آج فقط کے خاکے کے صورت میں ذہنوں میں ہیں، وہ آج نہیں تو کل ضرور حقیقی شکل میں نمودار ہونگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔