داستان ایک مسکراہٹ کی – مرید بلوچ

1000

داستان ایک مسکراہٹ کی

تحریر: مرید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“انتظار ”
معمول کے مطابق سرد رات میں ستر سالہ خاتون ماہ بی بی گھر میں اکیلی کسی کے انتظار میں بیٹھی تھی، وہ اس کشمکش میں تھی کہ روزانہ کی طرح کیا آج بھی وہ انتظار کرتے کرتے سو جائیگی یا پھر آج رات اسے اس قدر انتظار کرنا نہیں پڑے گا۔ وہ سوچ کے سمندر میں اس قدر کھو چکی تھی کہ کبھی ماضی کے کہکشاں میں غوطے لگاتی تو کبھی مستقبل کے حسین خواب میں اڑ رہی ہوتی، پھرلاشعوری طور اسے محسوس ہوا کہ جب جب بھی وہ مستقبل کے گمان میں ہوتی تو اسکی آنکھیں روشن ہوجاتی اور چہرے پر مسکان آجاتی، بالکل وہی مسکان جو اسکی جوانی میں اسکا ہمسفر تھی۔ وہ انہی سوچوں میں اپنے ساتھ مگن تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ “ہاں یہ وہی ہے” اسکا دل اسکے ساتھ ہمکلام ہوا۔ ” تب ہی تو دستک کے بغیر دروازہ کھلنے کی آواز آئی” شعور نے بھی دل کی حامی بھر لی۔ وہ اٹھی جلدی جلدی بھاگی بھاگی باورچی سے حال کے راستے سے ہوتے ہوئے جوں ہی دروازے تک پہنچی، اسکی خوشی کی حد نا رہی۔ یہ انتظار آج رائیگاں نہیں گیا! خود کلامی کرتے اسکے آنسو باہر آ رہے تھے۔

“رہبر”
نثار اپنے دونوں سنگتوں کے ساتھ شام سے ہی انتظار میں تھا کہ کچھ اندھیرا چھاجائے، وہ اور تھکے دوست جو پچھلے ہفتے سے کیمپ میں ذمہ داری ادا کر رہے تھے اور اب شہرکا رخ کئے ہوئے تھے تاکہ آج رات کسی محفوظ جگہ قیام کر سکیں۔ نثار کے ساتھ اسکا ساتھی زوہیب اوراستاد دودا بھی تھا۔ زوہیب جو اسکے بچپن کا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ نظریاتی ساتھی بھی تھا ہمیشہ کی طرح آج بھی اسکے ساتھ تھا۔ زوہیب کے علاوہ اسے دودا کے ساتھ وقت گذارنا بہت اچھا لگتا وہ سینئر ہونے کے علاوہ ایک اچھا دوست اور شفیق انسان تھا۔ نثار کو اس دوست میں ہمیشہ سے ہی اپنے والدکی جھلک دکھتی بالکل ویسے ہی فکر کرتا، خیال رکھتا، نصیحتیں کرتا او ر ایک استاد کی طرح اسکے ہر اک عمل کا باریک بینی سے جائزہ لیتاتھا۔ شہر سے آگے اب نثار پر ذمہ داری تھی کہ احتیاطی تدابیر کا خیال رکھتے ہوئے پناہ گاہ کی طرف جانے کا فیصلہ کرے۔ وہ تقریباً پچھلے پانچ گھنٹے سے شہر کے سنسان ہونے کا انتظار کر رہے تھے اور رات کے دوسرے پہر وہ اپنی موٹر سائیکل شہر کے قریب ٹھکانا لگا کر پناہ گاہ کی طرف پیدل جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

“تسکین”
ماہ بی بی آج بہت خوش نظر آ رہی تھی آج اسکا اکلوتا نواسہ نثار اسکے سامنے تھا۔ وہ دل ہی دل میں چاہ رہی تھی کہ نثار کا سر اپنے گودمیں رکھ کر سلائے، مگر کہیں اسکی نثار کے ساتھ مامتا بھری محبت ان بچوں پر اثر انداز نا ہو جنہیں وہ نثار ہی کی طرح چاہتی تھی۔ وہ زوہیب اور دودا سے اچھی طرح واقف تھی اور انکے سامنے کبھی ایسا رویہ اختیار نا کرتی جس سے ایسا تاثر آتا کہ وہ نثار سے الگ ہیں۔ ماہ بی بی کھانا گرم کرنے کی نیت سے اٹھی مگر زوہیب نے انہیں منع کر دیا اور ” کوش” جو خاص اسکے لئے لایا تھا، جیب سے نکال کر اسکے حوالے کیا۔ ماہ بی بی نے زوہیب کی پیشانی پر بوسہ دیا اور انہیں چائے پلا کر انکے کمرے تک رخصت کی اور دودا کو ہدایت کر دی کہ میں جاگ رہی ہوں آپ تینوں سو جائیں۔

“ذمہ داری'”
دودا نے یہ محسوس کی کہ ہمیشہ سے ہی انکے آنے سے قبل انکے لئے بستر بچھائے ہوئے ہوتے، وہ سوچ رہا تھا کہ یہ بوڑھی عورت کو یا پھر انکے آنے کا الہام مل جاتا ہے یا پھر یہ انکا معمول تھا کہ ان بستروں کو ایسے ہی روزانہ صفائی کے ساتھ بچھائے۔ دودا جب بھی یہاں قدم رکھتا اسے اپنے ماں کی یاد آجاتی، مگر اس نے کبھی اس بات کا اظہار نا کیا۔ سونے سے پہلے دودا نے ۱یک بار پھر صحن کا معائنہ کیا اور ان تمام عوامل کا مختصراً جائزہ لیا، جنکا اس نے نثار کو ہدایت کر دی تھی۔ واپس کمرے کی طرف آتے ہی نثار اور زوہیب اسکی آنکھوں میں کسی سوال کا جواب ڈھونڈ رہے تھے، جسکی اس نے آنکھوں اور ہونٹوں کو استعمال میں لاتے ہوئے ہاں میں حامی بھری۔ اب انکے پاس سونے کے لئے صرف اڑھائی گھنٹے تھے اور صبح سے پہلے ہی انہیں شہر میں موجود دوسرے ٹھکانے کی طرف جانا تھا۔ وہ تینوں اپنا پسٹل اور دوسرا سامان قریب ہی سمیٹ کر اپنے اپنے بستر پر لیٹ گئے۔

” دشمن کا حملہ”
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے سے ماہ بی بی صحن کے چکر لگا رہی تھی، وہ مسلسل مگر دھیمے دھیمے چل رہی تھی اور اسکے ہونٹ ہل رہے تھے، شائد کچھ پڑھ رہی تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے کی چوکیداری نے بوڑھی عورت کو تھکا دیا تھا، وہ کچن کی طرف گئی تا کہ چائے گرم کر کے پی لے اور اپنی تھکاوٹ دور کر لے۔ قریب دس منٹ تک وہ باورچی اور حال میں رہی اور اب واپس حال سے ہوتے صحن کی طرف جا رہی تھی۔ اسکا دل کچھ گھبرایا اور زور زور دھڑکنا شروع کیا، اسکے دھیمے قدم تیز ہوئے، مگر اب بھی وہ اس کمرے کی طرف نہیں بڑھ رہی تھی، جہاں اسکا نواسہ اور دو ساتھی سو رہے تھے۔ وہ کچھ کشمکش میں تھی اور صحن کے چاروں طرف چکر لگا کر کچھ سننے کی کوشش کر رہی تھی۔ اچانک وہ چونکی، بوٹوں کے تھپ تھپ اور ٹوٹی اردو کی سرگوشیوں نے اسے یقین دلا دیا کہ خطرہ ایک بار پھر اسکے دروازے پر آ پہنچا ہے، اس نے گھبرائے ہوئے اسی کمرے کی طرف بھاگنا شروع کیا جہاں وہ تینوں سو رہے تھے۔

” پیش قدمی ”
قریب آدھے گھنٹے کی نیند نے دودا کی تھکاوٹ دور کر دی تھی، اسے اگلے دن کا مشن ستا رہا تھا، وہ اپنے تصورات میں تمام معاملات کو بار بار دہرا رہا تھا اور لاشعوری طور پر اسکے ہاتھ کی انگلیاں ہل رہے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور قلم کاغذ ہاتھ میں لئے لائنیں لگاتا سوچتا مٹاتا پھر لکھتا۔ وہ نیند میں لیٹے دونوں ساتھیوں کو بھی بار بار دیکھ رہا تھا۔ پھر اچانک اسکے ہاتھ رکے، آنکھیں کھڑکی کی طرف جم گئیں اور کچھ سننے کی کوشش کی۔ وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ اسے باورچی کی طرف برتنوں کی آواز آئی اور اٹھتے ہی دروازے کی طرف جانے کے بجائے کھڑکی کھول کر وہیں کھڑا رہا۔ سڑک پر آوازوں اور تیز روشنی نے اسے چوکنا کیا۔ اس نے دونوں ساتھیوں کو اٹھایا اور کچھ تاکید کی۔ تینوں اب اپنا پسٹل اور سامان اٹھائے تیار تھے۔

“ندامت”
ماہ بی بی بھاگی بھاگی دروازے کی طرف آ رہی تھی کہ دروازہ کھلتا ہے اور دودا باہر کی طرف آ رہا ہوتا ہے۔ ماہ بی بی کے قدم رکے اور اس نے گھورنا شروع کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ دودا کی آنکھیں میدان جنگ میں اترے سپاہی کی طرح سرخ تھیں، اسکے دو ساتھی بھی سرمچار کا روپ دھار چکے تھے۔ دودا نے ماہ بی بی کی طرف دیکھا اور آنکھوں سے تسلی دے کر اجازت لی اور صحن کے دائیں طرف کجھوروں کے درخت کی طرف دونوں ساتھیوں کے ساتھ نکل گیا۔ ماہ بی بی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ مسلسل کچھ پڑھ رہی تھی، اسے اپنے عمر،کمزوری اور چائے کے پینے پر ندامت محسوس ہو رہی تھی۔

” منصوبہ بندی”
دودا نے انگلیوں سے اشارہ دیا تو جیسے زوہیب اور نثار پہلے سے پڑھائے سبق پر عمل کرنے لگ پڑے۔ نثار پچھلے دیوار کی طرف کا معائنہ کرنے لگا اور زوہیب صحن کے بائیں جانب اور آگے کی طرف کا معائنہ کرنے لگا۔ جلد ہی نثار نے دودا کا سر ہلا کر نا میں اشارہ دیا۔ اب دونوں زوہیب کی طرف دیکھ رہے تھے۔ زوہیب نے بھی دور سے اپنا اشارہ اپنے کمانڈر تک پہنچا دیا اور دودا کا ہاتھ اٹھا اور تین کا اشارہ دیا۔ اب وہ سمجھ چکے تھے کہ ان کے پہلے اور دوسرے حفاظتی تدابیر انکے حق میں نہیں تھے اور انہوں نے تیسرے منصوبے پر عمل کرنا شروع کیا۔

“بر وقت حملہ”
تینون سرمچار اپنے اپنے مورچے پر تیار تھے۔ نثار کو اپنے قریب ہی سرگوشیاں اور سیڑھیوں کی آواز آئی اور دودا کی طرف دیکھا۔ دودا نے کچھ اشارہ کیا۔ اگلے ہی لمحے نثار ہینڈ گرنیڈنکال کر پھینک چکا تھا اور دوسری طرٖف چیخنے اور بھاگنے کی اواز آئی۔ ادھر زوہیب نے زمین سے چند فٹ اوپر اپنا مورچہ پہلے ہی سنبھال لیا تھا۔ اور اپنے کلاشنکوف سے فائرنگ کر رہاتھا۔ دوسری طرف مشین گنوں کا منہ کھلا تو جیسے علاقہ میدان جنگ بن گیا۔ علاقہ مکین بھی اب سمجھ چکے تھے کہ فوج انکے علاقے میں پہنچ چکا ہے اور آس پاس ہی سرمچاروں کے ساتھ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ دس منٹ گذرے ہی تھے کہ آس پاس گھروں کی لائٹیں بجھ گئیں۔ تقریبا پندرہ منٹ سے مسلسل فائرنگ ہو رہی تھی اور فوج کے گاڈیوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔

” منصوبہ”
زوہیب اپنی پوزیشن سے تمام حرکات دیکھ سکتا تھا، اس نے آس پاس معائنہ کیا اور دودا کو آواز دے کر کچھ اشارے کئے اور پھر وقفے وقفے کے ساتھ دشمن پر تیر برسانے لگا۔ نثار کے صحیح جگہ گرنیڈ پھینکنے سے قریبی دشمن تقریبا مر چکے یا زخمی ہو چکے تھے اب زوہیب اسی کوشش میں تھا کہ دشمن کو کسی بھی طرح زیادہ سے زیادہ وقت تک گھر سے دور ہی رکھے۔ سب سے پہلے نثار اور پھر دودا دیوار کے قریب ہی کاریزتک پہنچ چکے تھے۔ پہلے نثار کاریز میں اترا جسکے بعد کچھ فائرنگ اور ہینڈ گرنیڈ کے کامیاب استعمال کے بعد زوہیب بھی دودا سمیت کاریزمیں اتر چکا تھا۔ فائرنگ اب بھی جاری تھی، دشمن خوف کے مارے گھر سے دور ہی فائرنگ میں مصروف تھے۔ کاریزکے نیچے کچھ مسافت طے کرنے کے بعد نثار نے باہر دیکھنے کی کوشش کی جس سے اندازہ ہو سکتا تھا، انہوں نے کتنا رستہ طے کیا اور کتنا مزید کرنا چاہئے۔

“کرشمہ”
کاریز سے باہر سر نکالتے ہی نثار کو اندازہ ہو چکا تھا، دشمن کی بڑی تعداد پورے علاقے کو گھیر چکی ہے، دو طرفہ فائرنگ اب بھی وقفے وقفے کے ساتھ جاری تھی اور شاید انکے کاریزمیں اترنے کا اندازہ بھی دشمن کو لگ چکا تھا۔ مگر کسی چیز نے اسے پریشان کیا اور جلدی اتر کر دودا کے ساتھ سر گوشی کرنے لگا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ قریبی کاریز میں دشمن اندھا دھند گرنیڈ پھینک رہے تھے، مگر وہ اب دشمن سے کافی دور پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے قریب آدھے گھنٹے مسلسل کاریز میں چلنے کے بعد نکلنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اب دشمن سے کافی دور آ چکے تھے اور آسانی کے ساتھ محفوظ ٹھکانے کی جانب جاسکتے تھے مگر وہ تینوں اب بھی کسی کشمکش میں تھے۔

“ہمت”
ماہ بی بی کو اب علم ہو چکا تھا کہ اسکے تین جانباز بیٹے دشمن کو چکما دے کرنکل چکے تھے، اس نے صحن اور کاریز کی طرف کے علاقہ کا جائزہ لیا اور جب یہ سمجھ گئی کہ دشمن کا حملہ گھر کے بجائے کاریزات کی طرف ہے۔ اس نے نظریں آس پاس دوڈائیں اور اسکی نظر اس مورچے پر پڑی جہاں زوہیب نے کلاشن کوف نصب کیا تھا اس نے سوچے بغیر مورچے کی طرف قدم بڑھائے، مورچہ سنبھال لیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ اسکے اس عمل نے دشمن کی توجہ کاریزات کے بجائے دوبارہ گھر کی طرف کر دی اور فائرنگ کا سلسلہ دوبارہ شدت اختیار کر گیا۔

” مسکراہٹ”
قریب ایک گھنٹا گذر چکا تھا، مگر دشمن پر اب بھی وقفے وقفے کے ساتھ فائرنگ جاری تھی۔ مگر اسکی شدت اب اس طرح نا رہی اور ہینڈ گرنیڈز کا بھی استعمال نہیں ہو رہا تھا۔ دشمن کی بکتر بند گاڈیوں نے شدت کے ساتھ حملے کا فیصلہ کیا۔ قریب پانچ منٹ بعد گھر کا مین گیٹ ٹوٹ چکا تھا اور دشمن بکتر بند گاڈیوں سمیت صحن میں موجود تھا۔ مگر اب فائرنگ کی آوازیں بند ہو چکی تھیں۔ دشمن اب بھی خوف میں تھا اور انہیں اس بات کا یقین تھا کہ قریب ہی کوئی انکی تاک میں بیٹھا ہوا ہے۔ انہوں نے گھر کو چاروں طرف گھیرنے کے بعد فائرنگ کرنے والے کی تلاش میں پورا گھر چھان مارا، مگر کوئی انکے ہاتھ نا آیا سوائے غیر مسلح 70 سالہ خاتون جو اس کنویں کے پاس کھڑی دشمن کو دیکھ کر طنزاٗ مسکرا رہی تھی اس نے ایک دفعہ پھر محسوس کیا کہ یہ وہی مسکان تھی جو جوانی کے دنوں سے اسکا ہمسفر تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔