خطے کی بدلتی سیاسی منظر نامہ اور بلوچ
تحریر: ایمن امام
دی بلوچستان پوسٹ
آج ہی دوحہ میں دو دہائی کی خونریز جنگ اپنی اختتام کو پہنچنے والی ہے۔ کل کے “دہشتگرد افغان طالبان”، آج کا “مہذب افغان طالبان” کا لبادہ پہننے جارہا ہے۔ اس بات کو عالمی قوتیں جتنا ہی طول کیوں نہ دیں پر اس امر کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ عالمی قوتیں افغان طالبان کے سامنے ڈھیر ہوگئیں۔ پہلی دہائی کے اوائل میں اعلان جنگ انکا تھا اور دوسری دہائی کے آخر میں اختتام بھی۔
افغان طالبان کو ایک کمزور فریق کی حیثیت سے کافی زوال کا سامنا کرنا پڑا؛ کبھی قائدین کی ہلاکتیں، کبھی وسائل کی کمی تو کبھی علاقوں سے اپنا اثر و رسوخ کھو دینا، یا دو لخت ہونا۔ یہ وہ عوامل ہیں جنکا خلا پُر کرنا یا چھینے گئے علاقوں پر اپنا قبضہ واپس جما لینا شاید ہی ممکنات میں شامل ہوں۔ اگر کوئی گروہ ایسے حالات میں کامیابیاں سمیٹیں تو ہر ذی شعور کو اسکی سیاسی، سفارتی، جنگی بشمول تکنیکی بصیرت تسلیم کرلینا چاہیئے۔
افغان طالبان اپنے آخری زوال کے بعد پچھلے دو برسوں میں افغانستان کے 70% کا علاقہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس بات کی تصدیق خود امریکی و نیٹو آفیشلز کرتے رہے۔ امریکہ و افغان حکومت کبھی چین، کبھی ایران، روس اور حسبِ معمول پاکستان پر افغان طالبان کی امداد پر الزامات لگاتے رہے جسکی اب تصدیق ہورہی ہے۔ افغان طالبان نے تمام ہمسایہ ممالک سے اپنی سفارتی تعلقات قائم کئے اور پراکسی کے بجائے بطور طاقت اپنا لوہا منوایا۔
آج افغان طالبان کو جہاں کاغذوں کے سیاہ و سُرخ نشانات سے فارغ کیا جائیگا اور اس خطے پر انکے اثر و رسوخ کو دنیا باضابطہ طور پر تسلیم کرلے گا، اسکے اثرات دنیا پر پڑینگے ہی، لیکن اس خطے پر نمایاں تبدیلیاں حتمی ہیں۔ یہاں برسوں سے چل رہا امریکہ مخالف گٹھ جوڑ کے نتائج دنیا کیلئے چیلنج ہوسکتے ہیں پر اس خطے پر امریکی حمایت یافتہ گروہوں کیلئے بھیانک نتائج برآمد بھی ہوسکتے ہیں ۔ یہاں سرگرم بلوچ قومی تحریک جو پاکستان کیلئے اب درد سر بن چکا ہے، اپنا تقریباً ڈیرہ افغانستان میں جمایا ہوا ہے۔ اس ضمن میں انکا افغان طالبان سمیت افغان حکومت سے رابطے بھی کوئی نئی بات نہیں پر اب سیاسی منظرنامہ اپنا قبلہ بدل رہا ہے کیونکہ حال ہی میں افغان طالبان نے اپنے ایک جاری بیان میں کہا کہ وہ کسی بھی ریاست مخالف گروہ کو اپنا سرزمین استعمال ہونے نہیں دیگا۔ یہ بیان سیاسی ہے یا نہیں؟ اسکا جواب جاننے کیلئے ہمیں افغان طالبان اور پاکستان کا تاریخی پس منظر پر طائرانہ جائزہ لینا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان کو پاکستان کی طرف سے آلات، جنگی تربیت، محفوظ ٹھکانے، علاج و معالجہ جیسی سہولیات فراہم کیا گیا جسکا کوئی ثانی نہیں، اس ضمن میں امریکہ نے پاکستان کو “ڈبل گیمر” قرار دیا اور امداد کی کٹوتی بھی کی، یہی وجہ ہے جو پاکستان FATF کے “grey” لسٹ میں شامل ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے افغان طالبان کیخلاف بلواسطہ یا بلاواسطہ کارروائیاں بھی سر انجام دیں جن میں افغان طالبان کا سربراہ مُلا اختر منصور کی بلوچستان میں ہلاکت بھی شامل ہے جبکہ افغان طالبان کی طرف سے کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔
یہ افغان طالبان کی شاید دور اندیشی ہے جسے آج یہ کامیابی عطا کی ہے۔ قوی امکان ہے کہ افغان طالبان اسی دور اندیشی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان اور اینٹی امریکن کیمپ (ایران، روس، چائنا) کیساتھ اپنی گٹھ بندھن مزید مضبوط بنائے گا۔
اسکے برعکس بلوچ قوم پرستوں کا بھی افغانستان میں گھیرا تنگ کیا جائیگا، جس طرح مقبوضہ ایرانی بلوچستان میں ہر مہینے کسی بلوچ کمانڈر کی شہادت رونما ہوتا ہے، عین اسی طرح افغانستان میں بھی ریاست اپنے پراکسیوں کے ذریعے یہی کام افغانستان میں بھی سر انجام دیتا رہے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہمارے لیڈران کے پاس ایسی کوئی پالیسی ہے جس سے حالات کے رُخ کو ہم اپنے حق میں بدل سکیں؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔