جبری طور پر لاپتہ عتیق الرحمٰن لاشاری کے والدہ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ میرے بیٹے عتیق الرحمٰن کو بی آر سی کالونی خضدار سے اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی غرض سے گیا تھا جس کے بعد وہ واپس نہیں آسکا۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کی غیر قانونی حراست سے شدید تشویش میں مبتلا ہوں اور پورا خاندان شدید کرب کا شکار ہیں۔
عتیق الرحمٰن کے والدہ کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کو تین سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن اس کی بازیابی ممکن نہ ہوئی ہم نے انصاف کے تمام دروازے کھٹکٹائے لیکن ہمارے درد اور دکھ کو کسی نے محسوس نہ کیا۔ میں ایک بار پھر میڈیا کے توسط سے اپنے بیٹے کی بازیابی اور خیریت کے متعلق اپنے احتجاجی موقف کو ریکارڈ کرانا چاہتی ہوں کہ اگر میرے بیٹے کا کوئی جرم ہے تو اسے منظر عام پر لاکر ان کا ٹرائل کیا جائے اس طرح کی غیر قانونی حراست میں رکھنے اور لاپتہ کرنے سےہم ہر دن کرب اور تکلیف کے ساتھ گزارتے ہوئے اس امید پہ زندہ ہے کہ آج یا کل ہمارے بیٹے کو ہمارے حوالے کیا جائیگا۔
بیان میں کہا گیا ہےکہ ریاست کے اپنے قوانین اور عدالتیں موجود ہے تو پھر اس کا کیا جواز بنتا ہے کہ مروجہ ریاستی قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمارے پیاروں کو اس طرح غائب کیا جائے کہ ان کا کوئی پتہ اور نشان نہ ہو جن کے بارے میں ہمیں نہ تو معلومات دی جاتی ہے اور نہ ان سے ہمارا رابطہ کروایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر میرے بیٹے پر کوئی شک یا الزام یا کوئی شکایت ہے تو انصاف پر مبنی قانونی تقاضوں کے تحت انہیں بازیاب کرکے صفائی اور دفاع کا بھر موقع دیا جائے اگر ان پر کوئی جرم نہیں تو انہیں حراست میں رکھنے کے بجائے بازیاب کرکے انہیں زندگی کا حق دیا جائے۔
عتیق بلوچ کے والدہ نے مزید کہا کہ میرے بیٹے کو 23 فروری 2017 کو خضدار بی آر سی کالونی سے اغواء کیا گیا ان کی بازیابی کے لئے ان کے لواحقین اور خاندان کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔ وائس فار مسنگ پرسنز کے تنظیم کے ساتھ ان کے کوائف بھی جمع کیئے گئے جب کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کو بھی ان کے کوائف دئیے گئے لیکن ابھی تک ان کی بازیابی کو یقینی بنانے کی کوششیں کسی نتیجہ خیز جواب دینے سے قاصر ہے۔