بی این ایم وفد کا برطانوی رکن پارلیمنٹ سے ملاقات، بلوچستان متعلق پریذنٹیشن کا اہتمام

350

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بی این ایم کے برطانیہ زون کی جانب سے بدھ چھبیس فروری کو برطانوی پارلیمنٹ میں ممبر آف پارلیمینٹ اسٹیفن مارگن سے ان کی دعوت پر ملاقات کی گئی۔ پارٹی کی جانب سے بلوچستان پر پاکستانی قبضے کی تاریخی حیثیت، جدوجہد، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور وسائل کی استحصال و لوٹ مار پر برطانوی رکن پارلیمنٹ کے لئے ایک پریذنٹیشن کا اہتمام کیا گیا۔ ملاقات میں پارٹی کے خارجہ سیکریٹری حمل حیدر بلوچ کے علاوہ یوکے زون کے صدر حکیم بلوچ اور فہیم بلوچ سمیت دیگر کارکن بھی موجود تھے۔ پریزنٹیشن بی این ایم یوکے زون کے صدر حکیم بلوچ نے پیش کی۔ برطانوی رکن پارلیمان نے دلچسپی سے پریذنٹیشن سنا اور بلوچستان میں انسانی المیہ پر کامن ویلتھ اور فارن کمیٹی کے سامنے آواز اٹھانے کی یقین دہانی کی۔

ملاقات میں حمل حیدر نے بلوچستان کے حالات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صرف گذشتہ ایک مہینے میں پچاس کے قریب لوگ لاپتہ اور دو درجن سے زائد شہید کیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ وہ تعداد ہے جو بلوچ ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں فوج نے عام لوگوں کا آنا جانا نا ممکن بنایا ہے۔ اسی لئے بہت سے واقعات کی رپورٹ عام عوام تک نہیں پہنچ پاتی۔

حمل حیدر نے مزید کہا کہ بلوچستان میں میڈیا پر اس قدر سنگین پابندیاں عائد کی گئی ہیں کہ ایک عالمی صحافی جب بلوچستان میں رپورٹنگ کرنے گئی تھیں تو انہیں گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور بعد ازاں وہاں سے بیدخل کردیا گیا تھا۔

حمل حیدر نے کہا کہ پاکستانی ریاست کی جانب سے سیاسی جہدکاروں اور رہنماوں کو بلیک میل کرنے کی غرض سے ان کے اہلخانہ، بھائی بیٹے یا والد، اور اب تو بلوچ خواتین تک کو بھی لاپتہ کرکے لوگوں کو اپنے آزادی کی جدوجہد سے روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

بی این ایم یو کے زون کے صدر حکیم بلوچ کی جانب سے ایک پریزینٹیشن ”بلوچستان – دی لینڈ آف ایمپیونیٹی“ کے عنوان سے پیش کی گئی۔ پریزینٹیشن میں بلوچستان کی تاریخی و جغرافیائی حیثیت، برطانوی قبضہ گیریت اور بعدازاں بلوچستان کی تقسیم، اور گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو بلوچستان کی آزادی اور آزاد بلوچستان پر بزور طاقت پاکستان کے قبضہ کی کہانی دستاویزات کے ساتھ پیش کی گئی۔

حکیم بلوچ نے اپنے پریزینٹیشن میں بلوچستان میں ہونے والی پانچوں تاریخی جدوجہد پر روشنی ڈالی۔ 1948 ،1950 1960اور 1970 کی دہائی میں ہونے والی جدوجہد کے ادوار اورموجودہ تحریک، پاکستان کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی، پاکستان کی دھوکہ دہی، دورغ گوئی اور مذاکرات کے نام بلوچ رہنماؤں کی گرفتاری اورتختہ دار پر چڑھانے جیسے واقعات کا حوالہ دیکر انہیں یہ بتایا گیا کہ کس طرح پاکستانی ریاست نے بلوچ قومی تحریک کوکچلنے کے لئے تمام حدود پار کیئے ہیں۔ آج بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی کا بیج بویا جا رہا ہے۔

حکیم بلوچ نے موجودہ اور پانچویں جدوجہد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سن دو ہزار میں شروع ہونے والی اس جدوجہد کی جڑیں بلوچستان کے ہر ایک کونے میں پھیل چکی ہیں۔ اس جدوجہد میں ایک اہم ترین موڑ وہ تھا جب دو ہزار چھ میں بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر خان بگٹی کو انکے ساتھیوں سمیت بمباری کرکے شہید کیا گیا تھا۔ حکیم بلوچ نے بلوچستان میں جاری سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بلوچ نوجوان بلوچستان میں غیر محفوظ تھیں مگر گذشتہ کچھ سالوں سے ریاست پاکستان نے دیگر ممالک سے انہیں لاپتہ کروانا شروع کیا ہے، اسکی اہم ترین مثال دسمبر دو ہزار اٹھارہ میں متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی کا شکار بننے والے راشد حسین ہیں۔ انہیں چھ مہینے تحویل میں رکھ کر پاکستانی خفیہ اداروں کے حوالے کردیا گیا اور وہ تاحال لاپتہ ہیں۔ حکیم بلوچ نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں بھی بلوچستان میں انتہائی غیر محفوظ ہیں۔ اسکی مثال نواز عطاء بلوچ کی جبری گمشدگی ہے جو بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائیزیشن کے انفارمیشن سیکرٹری کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہوئے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے۔ وہ تاحال لاپتہ ہیں۔

حکیم بلوچ نے بی این ایم رہنما ڈاکٹر دین جان بلوچ اور بی ایس او آزاد کے رہنما شبیر بلوچ کی جبری گمشدگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا پاکستانی ریاست بلوچ سیاسی کارکنان کو صرف اس وجہ سے لاپتہ کرکے سالوں تک زندانوں میں قید کردیتی ہے کیونکہ وہ ریاست کی جبری مسلط کردہ قوانین اور قبضہ گیریت کو جمہوری سیاسی انداز میں چیلنج کرتے ہیں۔

حکیم بلوچ نے اپنے پریذنٹیشن میں بلوچستان کے علاقے خضدار، تربت اور ڈیرہ بگٹی سے ملنے والی اجتماعی قبروں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے ملنے والی ان اجتماعی قبروں میں خضدار سے ملنے والی اجتماعی قبر سے ایک سو ستر سے زائد لاشیں برآمد ہوئی تھیں اور دیگر قبروں سے بھی بڑی تعداد میں لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

حکیم بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں میڈیا بلیک آوٹ کی وجہ سے وہاں ہونے والی سنگین جرائم سے شاید آپ جیسے ارکان پارلیمان بھی ناواقف ہوں کیونکہ بلوچستان میں میڈیا کی آزادی بھی سلب کی گئی ہے۔ بلوچستان میں غیر ملکی میڈیا کو جانے کی اجازت دی جاتی اور نہ ہی بلوچستان کے حالات بابت پاکستانی میڈیا میں کوئی رپورٹ شائع کی جاتی ہے۔

حکیم بلوچ نے قدرتی معدنیات سے مالا مال بلوچستان کے حوالے سے کہا کہ بلوچستان میں، گیس، تیل، سونا، سمندر، سنگ مرمر اور یورینیم سمیت دیگر سینکڑوں معدنیات موجود ہیں۔ بلوچ قوم کی مرضی و منشا کے بغیر پاکستانی ریاست چین اور دوسری کمپنیوں کے ساتھ ملکر انہیں روزانہ کی بنیاد پر لوٹ رہے ہیں۔ ریکوڈک، سیندک اور سی پیک جیسی تباہ کن پراجیکٹس کے نام پر بلوچ قومی وسائل کا استحصال بغیر کسی عالمی روک تھام کے جاری ہے۔

سی پیک کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حکیم بلوچ نے کہا سی پیک صرف بلوچ قوم کے لئے ہی تباہی کا سبب نہیں بلکہ چائنا کی ایک فوجی منصوبے کا اہم ترین حصہ ہے جس سے عالمی امن کو بہت خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

حکیم بلوچ نے اپنے پریزینٹیشن کے اختتام پر اسٹیفن مارگن سے بلوچستان میں جاری سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کیخلاف برطانوئی فارن آفس کو لکھنے سمیت برطانیہ میں موجود پاکستانی مشن سے سوال کرنے کی درخواست کی۔ پاکستان کو برطانیہ کی جانب سے دی جانی مالی و فوجی کمک کو روک کر ایک شفاف پالیسی بنانے اور یہ یقینی بنانے کی درخواست کی گئی کہ بلوچستان میں برطانوی ہتھیار اور کمک کا استعمال بلوچ عوام کیخلاف نہ ہو۔

فہیم بلوچ نے دوران ملاقات ایک انتہائی اہم نقطہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریاستی فورسز مذہبی شدت پسند جماعتوں کو پھیلا رہے ہیں۔ بلوچستان کی سیکولر اقدار کو سبوتاژ کرنے کیلئے جماعت الدعوہ، داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کو فوج کی پشت پناہی میں بلوچستان کی مختلف علاقوں میں طاقت ور بنایا جارہا ہے۔

اسٹیفن مارگن نے گذشتہ ملاقات سے لیکر اس ملاقات تک ہونے والی پیش رفت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے بلوچستان میں جاری سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں سوالات کرکے ان سے یہ کہا ہے کہ لوگوں کی انسانی حقوق کی تحفظ، فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسپریشن کو یقینی بنائیں۔

انہوں نے پریزینٹیشن سن کر دستاویزات کو دیکھ کر اپنی طرف سے یقین دہانی کرائی کہ وہ جلد از جلد اس حوالے سے پارلیمنٹ میں مزید سوالات اٹھائینگے۔ اس حوالے سے کامن ویلتھ اور فارن کمیٹی سے گفتگو کرکے کوشش کرینگے کہ کوئی پیش رفت ہو۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات کو سمجھنے کیلئے یقینی طور پر ہمیں اس طرح کے پریزینٹیشن اور دستاویزات بہت مدد کرسکتے ہیں کیونکہ بلوچستان کے حوالے سے میڈیا پر خاموشی کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

اسٹیفن مارگن نے کہا وہ یقینی طور پر جبری گمشدگیوں کے مسائل، انسانی حقوق کے مسائل، فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسرپریشن سمیت غیر ملکی صحافیوں اور این جی اوز کو بلوچستان میں آزادانہ طور پر کام کرنے کے حوالے سے حکومتی اراکین سے سوال کرکے ان پر یہ پریشر ڈالیں گے کہ پاکستان کو پابند کیا جائے تاکہ وہاں بسنے والے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال نہ ہوں۔