بلوچ طلباء جدوجہد اور نوآبادکار – فیضان بلوچ

213

بلوچ طلباء جدوجہد اور نوآبادکار

تحریر: فیضان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

طلباء جدوجہد کی اس داستان کا ابتداء انیسویں صدی سے ہوکر بیسویں صدی پھر بیسویں صدی کے اوائل سے لیکر آخر تک اپنے اندر بہت سی باتیں،قربانیاں سمیٹ کر اکیسویں صدی تک آپہنچی۔ روزِ اول سے ہی باشعور طبقے نے اپنے مستقبل کو غیر محفوظ و تاریک دیکھ کر اپنے مادرِ وطن و اپنے قوم سے محبت کا اظہار ایک انوکھے انداز میں پیش کیا.اُن جان بازوں اور جان نثاروں نے دشمن کے ہر چال کو ناکام بنا کر اپنے وجود کا اپنے بہادری کا اپنے محب الوطنی کا اعلیٰ ترین ثبوت دے کر ہر محاذ پر دشمن کو پسپا کردیا، جو جنگ لڑی گئی وہ قلم کی طاقت سے ہی لڑی گئی۔

بلوچ قوم پرست نوجوانوں نے اپنے ملک بلوچستان کو نوآبادکار برطانیہ ہو یا پاکستان سے پاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ قوم پرست کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ لوگ جو اپنے نام کے ساتھ بلوچ ٹیگ استعمال کرتے ہیں اور بلوچ قوم کے استحصال میں نوآبادکار کے ساتھ برابر کے شریک ہیں اس جد وجہد میں ان غداروں سے بھی اس پاک دھرتی کو پاک کرنا ہے.

استعماری قوتوں کے خلاف بلوچ سیاسی جدو جہد کا آغاز بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں ہی ہوا۔ انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان ہو یا کوئی دوسری قوم پرست جماعت اپنے جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوئے ۔ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد جب پاکستان وجود میں آیا تو سب سے پہلے پاکستان کی نظر اس ہیرے جواہرات سے بھرے دھرتی بلوچستان پر پڑی ۔پاکستان نے سب سے پہلے بلوچستان پر قبضہ کیا تا کہ وہ وہاں آسانی سے اپنے قدم جمائے رکھے، اسی دوران ایک بار پھر بلوچ سیاسی تنظیموں نے اس غیر آئینی اقدام کی پر زور مخالفت کی اور اپنے آزادی و حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھا .بی ایس او کا قیام بھی عمل میں آیا اس طلبہ تنظیم کو بھی ریاست نے کچل ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی کیونکہ دنیا کی کسی بھی انقلاب پر نظر ڈالوگے تو وہاں جو کردار طلبہ تنظیموں کا رہا ہے ان کے بدولت وہ اپنے منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی ریاست نے اپنے روایتی طور طریقوں پر عمل کرکے بلوچ قوم خصوصاً بلوچ طلبہ پر اپنے ظلم و جبر کی ایک اور داستان رقم کی ۔ ان 20 سالوں کے دوران جس طرح ریاست پاکستان نے اپنے قبضہ گیریت کو قائم رکھا اور بلوچ قوم کے ساحل و وسائل کے لوٹ مار میں ایشیاء کے سپر پاور چین کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ اب جو ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں تو وہ ماڈرن دور کو مدنظر رکھ کر کررہے ہیں. مذہبی ، قبائیلی ، علاقائی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرکے بلوچ قوم کو کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے تا کہ وہ با آسانی بلوچ قوم کا نام و نشان مٹا کر بلوچ قوم کے ساحل و وسائل کا مالک بن جائے ۔

ریاست پاکستان کا حدف روزِ اول سے ہی طلبہ رہ چکے ہیں کہ کس طرح ان کے ذہنوں کو منتشر کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کروں جیسے میں نے پہلے ذکر کیا کہ طلبہ کا ملک و قوم کے ترقی میں بہت بڑا کردار رہ چکا ہے۔

اب کچھ ایسے مسئلے پیش آرہے ہیں کہ ایک تو ریاست جتنا کامیاب ہونا چاہتا تھا ہوگیا کہ آج بھی بلوچستان کا شرح خواندگی دیکھا جائے تو نا ہونے کے برابر ہے، اگر کچھ گنے چنے کالج یا یونیورسٹیاں قائم ہیں تو ان میں بھی بلوچوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ باقاعدگی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔ کچھ ہی مہینوں کہ اندر اندر ایسے واقعات جنم لے چکے ہیں جو کہ بلوچ قوم کے ننگ و ناموس کے بالکل خلاف ہے ویسے تو طلبہ کے لئے مسئلوں کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن جو مسئلے اب درپیش آرہے ہیں وہ نوآبادکار ( پاکستان) کا نوآبادی ( بلوچوں) کو یہ دکھانا ہے کہ وہ حاکم اور بلوچ قوم مظلوم ہے.

بلوچستان یونیورسٹی میں ہونے والے اسکینڈل اور اس میں ملوث افراد سے کوئی انکوائری نہیں ہوئی مسئلے کو کچھ دن ہائی لائٹ تو کرنے میں طلبہ کامیاب ہوئے لیکن وہ جس چیز کے لیے اٹھے تھے اس میں کامیاب نہیں ہو سکے، کامیاب اس لیے نہیں ہو سکیں کیوںکہ جو ملزمان تھے جن کو سزا ملنا چاہیے تھا نہیں ملا اور آج بھی وہ اپنے عہدوں پر فائز ہیں.اب دیکھا جائے تو یہ بھی ریاست کی ایک سازش ہے کہ کس طرح بلوچوں کے لیے تعلیم کے راستے بند کر کے ان کو اندھیرے میں رکھ کر اپنے غلام بنا کر قربانی کا بکرا بنا دے۔

اسی طرح ضلع ڈیرہ بگٹی کے طالبات کے لیے ایک ہی کالج ہے، جس کے واشروم میں خفیہ کیمرے نصب کیے گئے تھے جس کا بھی کوئی نہ نتیجہ نکلا نہ ملزمان کو سزا سنائی گئی۔ کچھ دنوں سے بی یو ایم ایچ ایس(BUMHS) کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ملازمین بھی اپنے جائز حقوق کے لیے پر امن احتجاج کر رہے تھے، جن کہ نتیجے میں نہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی اور نہ کہ گورنمنٹ بلوچستان نے۔ تو طلبہ نے اس احتجاج کو تقویت دے کر بلوچستان اسمبلی کے سامنے بیٹھ گئے ۔ جہاں بلوچستان پولیس کی طرف سے انتہائی جاہلانہ اور غیر مہذبانہ انداز میں طلبہ و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کو گرفتار کر کہ خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔