بلوچ سیاست کو خواتین کی ضرورت – گُل حسن بلوچ

630

بلوچ سیاست کو خواتین کی ضرورت

تحریر: گُل حسن بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر دیکھا جائے روز اول سے بلوچ طلباء سیاست میں اور پارٹی کی سیاست میں خواتین کی شمولیت نہیں رہی ہے، جب ہم یوسف عزیز مگسی کے دور کو دیکھتے ہیں یا 1960 کی دہائی کو، تو بالکل عورت کا ذکر اُن کی تاریخ میں نہیں ملتا ہے۔ دانشور اور تاریخ دان یہی کہتے ہیں کہ بلوچ سیاست کا آغاز یوسف عزیز مگسی کے وقت سے ہوا ہے، اُس وقت یوسف عزیز مگسی نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سیاسی کلچر کو فروغ دیا۔ بد قسمتی سے خواتین کی سیاست کو اہمیت نہیں دی، لیکن بلوچ قومی سیاست کسی حد تک کامیابی کی طرف چل رہا تھا کہ بد قسمتی سے 30\31 مئی 1935 کو کوئٹہ میں زلزلے نے بلوچ قوم کے عظیم دانشور اور سیاسی رہنما یوسف عزیز مگسی کو بلوچ قوم سے جسمانی طورپر جدا کردیا، لیکن اُس کے فلسفے و نظریات ہر وقت بلوچ نوجوانوں کی رہنمائی کرتے آرہے ہیں۔ اُس کے جسمانی جدائی سے بلوچ سیاست پر بہت ہی اثر پڑا اور یوسف عزیز مگسی کے وفات کے بعد سیاست بالکل زوال کا شکار ہوگیا، اس کے بعد ہم اگر 1960 کےسیاست کو دیکھتے ہیں بد قسمتی سے وہاں بھی عورت کی شمولیت نہیں تھی، اس وقت تعلیم جیسا بنیادی حق بلوچستان میں میسر نہیں تھا۔

تعلیم حاصل کرنے کے لحاظ سے زیادہ تر نوجوان کراچی اور کوئٹہ جاتے تھے، وہاں کے باشعور عوام کو دیکھ کر اُن کے اندر ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا ۔ باقی دنیا کو دیکھ کر پریشان ہوگئے کہ دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچا ہے اور پہنچ رہا ہے اور ہم ابھی تک تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں ۔ جب 1961 کو کراچی میں بلوچ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں قادربخش بلوچ , طاہر محمد خان ایڈوکیٹ , عبدالغفار ندیم , ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی , ڈاکٹر موسیٰ بلوچ , علی بخش تالپور اور قادر بخش نظامانی , رحیم جانی , فتح محمد بزدار , یوسف نسکندی , یار محمد یار اور چنگیز عالیانی نے شرکت کی اور بلوچ قوم کے مسائل پر تفصیلی حال و احوال ہوا اور ایک بلوچ طلبہ تنظیم کے قیام پر متفق ہوئے۔ اُس کے بعد باقاعدہ طلباء تنظیم کی بنیاد رکھی گئی، جس کا نام تھا بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن ، پہلے صدر چنگیز عالیانی منتخب ہوئے۔ اُس تنظیم کے نام کے ساتھ لفظ ایجوکیشن اس لیے رکھا گیا تاکہ بلوچ نوجوانوں کے اندر تعلیم کے ساتھ سیاسی شعور پیدا کریں۔

1962 کو کوئٹہ میں صورت خان مری سمیت دوسرے بہت سے نوجوانوں نے 3اگست 1962 کو (بلوچ ورنا وانندہ گل ) کے نام سے ایک بلوچ طلبہ تنظیم کے قیام کا اعلان کیا اور عبدالحکیم پہلے صدر منتخب ہوئے، اس کے بعد جب 1965 میں کراچی میں دونوں تنظیمیں کے رہنماؤں کے درمیان ایک اجلاس منعقد ہوا وہاں سے دونوں تنظیمیں متحد ہوکر لفظ ایجوکیشنل حذف کیا گیا۔ نام بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن رکھا گیا۔ عبدالغفار ندیم صدر منتخب ہوا، اجلاس میں یہ بھی علان کیا گیا کہ بلوچستان کے کونے کونے تک تنظیم کے نظریات کو پہنچائے جائیں گے لیکن بد قسمتی سے چند سالوں کے بعد تنظیم تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئی، سرداروں و نوابوں نے اپنے مفادات کیلئے بی ایس او کو استعمال کیا۔

اسی طرح بی ایس او تقسیم در تقسیم کا شکار بنتا رہا، جبکہ 2002 کو بی ایس او کا کونسل سیشن ہوا، تو بی ایس او کا نام بدل کر بی ایس او آزاد رکھا گیا، اس کے بعد دوسرے دھڑوں نے بی ایس او آزاد کے ساتھ انضمام کرکے بی ایس او (متحدہ ) کا اعلان کیا، عبدالمالک بلوچ عبوری سربراہ واحد رحیم ڈپٹی بنے، دونوں کے اندر اختلاف بڑھ گئے اور واحد رحیم اپنے دوستوں کے ساتھ بی ایس او (نادر قدوس) میں شمولیت کی اور دوسرے دھڑے نے اپنا پرانا نام لیکر آج تک موجود ہے، ان دونوں گروپوں کے تقسیم کے بعد کچھ نظریاتی ممبرز تھے، ان کی وجہ سے بلوچ سیاست کے اندر نئی لہر شروع ہوئی اور وہاں سے خواتین کے شمولیت نے بلوچ سیاست کو ایک ایسا رنگ بخش دیا جو بلوچ سیاست میں کبھی نہیں ہوا تھا۔

پچلے کئی سالوں سے بلوچستان کے اندر سیاست چلتا آرہا ہے لیکن 2002 کے بعد جو تبدیلی آئی ہے، میں سمجھتا ہوں خواتین کی وجہ سے اتنی تبدیلی آئی ہے ۔ وہ کاروان ایک تسلسل کے ساتھ روان دواں ہے، وہ سیاسی کاروان بلوچ قوم کیلئے امید ہے.

2011 میں بلوچ قوم اور نوجوانوں کے روشن مسقبل اور اُمید کے نئے چراغ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی وجود میں آئے، سیاسی ءُ تعلیمی خلا کو پُر کرنے کیلئے دوستوں نے دن رات ایک کرکے بلوچ نوجوانوں کے امید کو دوبارہ بحال کیا، جو ایک حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

یاد رکھیں ان کامیابوں میں خواتین کا کردار قابل قدر ہے۔ بات تھی سیاست اور عورت کی جو آج تک ایسا پلیٹ فارم بلوچ خواتین کو میسر نہیں ہوا ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں ۔ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے بلوچ خواتین کو موقع دیا کہ وہ آکر مردوں کے ساتھ اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرسکیں ۔ 2018 کا کونسل سیشن کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا اور وہاں ایک اور کامیابی تھی کہ 12 مرکزی ممبراں میں سے 2 خواتین شامل ہوئے، جو مرکزی انفارمیشن سیکریٹری کے عہدے میں تسمیہ بلوچ شامل ہوئے اور کچھ مہینے کے بعد فارغ کردی گئیں اور ورکنگ کمیٹی کی عہدے پر ڈاکٹر صبیحہ بلوچ شامل ہوئیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا کامیاب کونسل سیشن رہا لیکن کچھ مہینے کے بعد غنی بلوچ جو مرکزی وائس چیئرمین تھا جو اپنے ذاتی مصروفیات کی وجہ سے تنظیم کے عہدے سے مستعفی ہوگئے، اب دونوں عہدے خالی پڑے تو مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تو مرکزی انفارمیشن سکریٹری کی جگہ شبیر بلوچ اور وائس چئیرمین کی جگہ ڈاکٹر صبیحہ منتخب ہوگئیں۔

ہم اس وقت کنفیوژن کے شکار ہوئے کہ شائد انفارمیشن سکریٹری کو زیادہ اکٹیو ہونے کی وجہ سے خاندان یا معاشرے کی طرف سےدباؤ آگیا ہے، اللہ نہ کرے ڈاکٹر صبیحہ کو اسی طرح دباؤ میں ڈال کر خاموش نہ کریں، کیونکہ صبیحہ بھی ہمارے اس جہالت بھرے معاشرے کا حصہ ہے اور دوسری طرف خضدار جیسے مہذبی علاقے سے تعلق رکھتی ہے، والدین اپنے بیٹیاں تعلیم حاصل کرنے تک کی اجازت نہیں دیتے ہیں، وہ جاکر اچھے تعلیم حاصل کرسکیں لیکن ڈاکٹر صبیحہ خضدار کو طے کرکے کوئٹہ تک پہنچ چکی ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔

وہاں بیسوی صدی کا سسٹم آج تک رائج ہے، خواتین کو بلکل اپنا غلام سمجھا جاتا ہے اور عورت اپنے حقوق کیلئے بات نہیں کرسکتی، سیاست ان کے نظر میں جرم ہے، 100 میں سے 2 فیصد ایسے با شعور والدین ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بچیوں کو اجازت دیتے ہیں، وہ جاکر تعلیم حاصل کر سکیں، ڈاکٹر صبیحہ بھی اُس معاشرے کا حصہ ہے، ان سارے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کوئٹہ تک پہنچ چکی ہے، یہاں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ طلبہ سیاست بھی کر رہی ہیں، جب وائس چئیرپرسن منتخب ہوئی تو ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صبیحہ کی بہت ہی بڑا کردار بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے سیاست میں ہے ۔

پسماندہ معاشرے سے تعلق رکھنے باوجود وہاں سے طے کرکے کوئٹہ پہنچنا، یہاں سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنا ایک عورت کیلئے اعزاز کی بات ہے۔

آخر میں ڈاکٹر صبیحہ سے درخواست کرتا ہوں کہ بلوچ قوم کی ساری امیدیں آپ سے وابستہ ہیں آپ کو بلوچ معاشرے کے اندر کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا اور بحثیت ایک تنظیم کے ذمہ دار آپ کی ذمہ داریاں زیادہ بنتی ہیں کہ معاشرے میں خواتین کے اندر سیاسی شعور پیدا کرنا اور خاص کر خضدار میں جہاں عورت اس جدید دور میں اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ وہاں علمی، سیاسی، معاشی اور معاشریتی شعور کو پروان چڑھانا آپ کا اولین فرض بنتا ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔