بلوچ تاریخ کا بیشتر حصہ نوآبادیاتی طاقتوں سے نبرد آزما ہونے میں گزاری ہے- بی ایس ایف

192

 بلوچ سالویشن فرنٹ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ  مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے قلات میں ایک ادبی دیوان کا انعقاد کیا گیا۔

ادبی دیوان سے بلوچ سالویشن فرنٹ کے چیئرمین سعید یوسف بلوچ، سنگت میر احمد بلوچ، امین عابد بلوچ و دیگر نے خطاب کیا۔

سعید یوسف بلوچ نے کہاکہ ہم اپنی تاریخ کا بیشتر حصہ نوآبادیاتی طاقتوں سے نبرد آزما ہونے میں گزاری ہے ہمیں چین اور امن میں رہنے نہیں دیا گیا ایک کے بعد دوسری طاقت ہم پر حملہ آور ہوتا آرہا ہے ہمارے آباؤ اجداد کی ایک شاندار تاریخ ہے جنہوں نے ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رہے ہمارا ہر لمحہ کرب دکھ اور تکلیف کی ایک پوری تاریخ اور داستان ہے ہماری آزادی ترقی تعلیم اور بحیثیت ایک آزاد قوم ہمیں فطری انداز میں پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ہم سے آزادی اور زندگی کا حق چھینا گیا ہماری تاریخ زبان ادب اقدار روایات کلچر اور تہزیب کو مسخ اور آلودہ کرنے کی کوشش کی گئی ہم پر کبھی عربی کبھی فارسی کبھی اردو اور کبھی انگریزی زبانوں کو مسلط کرتے ہوئے ہماری قومی و مادری زبان کو دبانے اور کمزور کرنے کی سعی لاحاصل کوشش کی گئی حالانکہ ہماری زبانیں بلوچی اور براہوئی جو ہزاروں سے ہم بولتے آرہے ہیں کسی بھی زبان سے کم تر نہیں دنیا کی زبانوں سے مقابلہ کی زبانیں ہیں ہماری قومی شناخت پر حملہ کیا گیا ہمیں زبان کی بنیاد پر براہوئی اور بلوچ قوم میں تقسیم کرنے کی منصوبے بنائے گئے حالانکہ ہمار اجغرافیہ ہماری زبان تہزیب کلچر ادب کسی بھی عالمی اقوام سے کم نہیں ہم ہر سطح پر دنیا کا مقابلہ کرسکتے ہیں ہماری ادب اور زبان زرخیز ہے ہماری زمین امیر ہے اس کے سینے میں اتنے وسائل ہے کہ ہم آزاد ہوجائے تو ہم کسی کی محتاج نہیں بن سکتے یہ دھرتی بلوچ قوم کو اقتصادی اور معاشی طور پر اتنا مستحکم بنا سکتے ہیں یہ کسی کے خیرات اور قرضوں سے بے پروا ہو کر ایک قومی ریاست و شناخت کے طورپر اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہےسعید یوسف بلوچ نے کہاکہ آج پوری دنیا میں زبانوں کا عالمی دن منا یا جارہاہے لیکن ہماری زبان کے ساتھ ساتھ ہماری وجود کو خطرہ ہے ہماری شناخت اور بقاء کا مسئلہ ہے یہ مادری زبانیں اصل میں قومی زبانیں ہوتی ہیں یہ ہماری ماں کی زبان ہے یہ ہماری دھرتی کی زبان ہے یہ ہماری آزادی کی زبان ہے اسے فرسٹ لینگویج یا مادری صرف اس لئے کہا جاتاہے کہ یہ ہم ماں کی گود میں سیکھتے ہیں ہماری مائو ں نے ہم سےاپنی زبان میں ہمارے لوریوں میں دھرتی کی تحفظ کی سوگند لئے ہیں اسی زبان کو سیکھتے سیکھتے ہماری نشوونما ہوئی ہیں یہ ہماری مائوں کی دوپٹہ ہے عزت ہے آبرو ہے اس میں ہماری ہزاروں سالہ تاریخ تہزیب شناخت اقدار مدفون ہے۔

انہوں نے کہا کہ کالونیلزم کی تیسرا وار کسی بھی قوم کی زبان اور ادب پر ہوتی ہے وہ ہماری زبان کو مقامی کا نام دے کر اسکی ترویج میں رکاوٹ بن جاتی ہے اگر ہماری ادب کلاسیکل ادب مزاحمتی ادب یا جمالیاتی ادب اور صوفی ازم کا مطالعہ کیا جائے تو کسی عالمی ادب سے کم نہیں جو قومیں اپنی زبانیں بھول کر دوسرے زبانوں پر فخر محسوس کرتے ہیں وہ ذہنی اور نفسیاتی غلامی قبول کرچکے ہیں ہمیں اپنے زبانوں میں بولنا لکھنا مکالمہ کرنے میں کیا مضائقہ ہے کیا شرمندگی ہے جس میں ہم جھجک محسوس کریں نو آبادیاتی طاقتوں کے گمراہ کن پروپیگنڈہ اور گھناؤنے رویوں کو خاطر میں لائے بغیر ہم اپنی قومی زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے تیزی سے کام کریں نوآبادیاتی قوتیں ہماری زبان کو فطری انداز میں پنپنے کا موقع کھبی بھی نہیں دیں گے اشاروں کی زبان سے مادری زبان تک کا سفر ایک طویل ارتقائی عمل ہے اس تسلسل کو برقرار رکھنا زبان کی معدومی کے خطرہ کو کم کرنے کی جدوجہد ہے ہمیں ریاست کی نقلی اور من گھڑت تاریخ اور مصنوعی شناخت کو مسترد کرتے ہوئے ایک خوشحال ترقی یافتہ تعلیم یافتہ اور آزاد معاشرہ کی تشکیل کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے۔