بلوچ اور ریاست قلات – باسط بلوچ

1281

بلوچ اور ریاست قلات

تحریر: باسط بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ نہ عرب، نہ فارس اور نہ ہی حلب سے ہجرت کرکے سرزمینِ بلوچستان آکر آباد ہوئے.بلوچستان سے مراد بلوچوں کی سرزمین اور اسی طرح بلوچ ازل سے بلوچستان دھرتی کے باسی و حقیقی وارث ہیں. عرب فارس یا حلبی حملہ آور کہہ کر ہمیں اپنے ہی خطے پر کمزور کرنے کی بے بنیاد و غیر فطری سازشیں ہیں. جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بلوچ خطہ ازل روز سے یونان ،پرتگالی ،ہخامنشی تو کبھی افغانستان کی جانب سے آنے والے آرین قبائل جیسے بیرونی حملہ آوروں کا مرکز رہا ہے مگر بلوچ سپوتوں نے مختلف قبائل کی صورت میں ان حملہ آوروں کا بہادری سے مقابلہ کیا اور ان کو بلوچستان میں ٹکنے نہ دیا. بلوچ تاریخ ہمیشہ تمام حملہ آوروں کو قابض لکھتی آرہی ہے. ان درباری مورخیں نے ہمیشہ بے بنیاد و من گھڑت مواد کا سہارا لیا، وہ چاہے لوک داستانوں کی ہیر پھیر ہو، چاہے شاعری کی بے بنیاد ہیرا پھیری سے بلوچ نسب و حسب بدلنے کی کوشش کی جیسا کہ مندرجہ ذیل مشہور بلوچی شعر کو بگاڑ کا نشانہ بنایا گیا.

اصل حالت
از الباد پادکائیں گو یزیداں جھیڑوا
کرپلا بمپور ما نیاما شہر سیستان منزلیں

بگاڑ حالت
از حلب پادکائیں گو یزیداں جھیڑویں
کربلا بمپور ما نیاما شہر سیستان منزلیں

یہاں یزید سے مراد ایرانی بربریت کی طرف نشانی ہے نہ کہ یزید بن معاویہ اور جگہ کرپلا ہے ایران میں البانا و بمپور کے درمیان ساحلی علاقہ ہے نہ کہ کربلا جہاں واقعہ کربلا کی جگہ ہے اور البانا کو حلب لکھ کر بغیر کسی حرج کے بلوچوں کو حلب سے منسوب کیا گیا اور اسی طرح بلوچ کو حضرت امیر حمزء سے منسوب کرنا بھی بے بنیاد ہے جب کہ حمزہ مغربی بلوچستان میں ایک ماہر بلوچ جنگجو تھا، جس کا ذکر بلوچی شاعری میں ہے اور ان غیر فطری مورخین نے بغیر کسی جست و تحقیق کے بلوچ حسب ونسب کو حضرت حمزء سے منسوب کیا گیا اس لیے تو کوئی ہمیں عرب کوئی فارسی کوئی آرین تو کوئی حضرت امیر حمزء سے منسوب کر دیتا ہے جب کہ یہ من گھڑت و بے بنیاد تاریخ ہے اگر تہذیبی نقوش پر نظر ڈالا جائے تو مہر گڑھ کی تہذیب گیارہ ہزار قبل مسیح اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچستان کی تہذیب پنجاب و سندھ سے کئی ہزار سال پرانی ہے اور بلوچ یہاں مختلف قبائل کی صورت میں آباد تھے، مگر مرکزی حکومت کے نہ ہونے باعث قبائلوں کی صورت میں بیرونی حملہ آوروں کی سے لڑ کر اپنی دفاع کرتے رہے.

پندرھویں صدی میں میروانی و کمبرانی قبیلے نے بلوچ قبائل قبائل کو یکجا کرکے ایک منظم ریاست، ریاست قلات کے ذریعے بلوچ حکومت کو عمل لانے کی بھرپور کوشش کی جو کافی حد تک کامیاب رہ رہی بعد ازاں خان عبدالقہار خان نے بلوچ حکومت کو مزید طاقت اور دائرہ حکومت کو ڈیرہ جات تک وسعت دی مگر بدقسمتی سے ان کے تین فرزند

(۱)میر اہلتہاز خان

(۲)میر مھبت خان

(۳)نصیرخان اول

میں سے اہلتہاز و مھبت نااہل و عیاش پرست نکلے اور بلوچ ریاست کوکافی حدتک کمزور کیا اور ان کی نااہلی کے باعث بیرونی ملک ایران و افغانستان کا اثر و رسوخ بلوچ ریاست پر بڑھ گیا. مگر خان عبدالقہار خان کے تیسرے فرزند نصیرخان انتہائی زہین و بہادر شخصیت کے طور پر ابھرے، انہوں نے دوبارہ ٹوٹی پھوٹی ریاست کو منظم کیا اور بلوچ ریاست کو اعلیٰ درجے کا مقام دیا. قلات سے لے کر ڈیرہ جات تک بلوچ ریاست کا بول بالا ہونے لگا، جنگجو صلاحیتون کے فوج کا اول دستہ جو کہ خان کے زیر کمان ہوتی تھی کا زیادہ حصہ ساراوان و جھالاوان بیلٹ سے تھا اور اس وجہ سے یہ مرکزی حکومت کو ٹیکس نہیں ادا کرتےتھے، ڈیرہ جات سالانہ آمدنی ساٹھ سے ستر ہزار روپے ریاست قلات کو دیتی تھی.

البتہ انگریزون کی آمد سے پہلے بلوچ ریاست اپنی عروج پر تھی انگریزوں کے جاسوس ہینری پوٹنگر ، و سرور خان جرنل جوزف اٹھارویں صدی میں جاسوسی کیلئے ریاست قلات میں داخل ہوئے، ہر قدم پر بلوچ باسی ان کی مہمانی نوازی کرتے رہے اور باہوٹی (سوداگر) سمجھ کر ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں مگر “کم ظرف کیا جانے ظرف داروں کی قدر” انھوں نے اپنی تحریروں میں بلوچ کو وحشی و جنگلی لکھا اور ہرربوئی کے مقام آکر بلوچی و براہوئی کا تنازعہ شروع کرکے ریاست قلات و بلوچ کو کمزور کرنے کی دھڑا دھڑ کوششیں شروع کی.

بلوچ علماء نے ان انگریزوں کے اس فتنے کو فوری حادثاثی طور پر دبوچا مکمل مخبری کے بعد انگریزون نے بلوچ ریاست پر حملے شروع کیے مگر بلوچ فرزند اوہل مری ،عبدالستار بگٹی ،کوڑا قیصرانی ،شکار خان احمدانی، یوسف عزیز مگسی، مھراب کی صورت میں انگریزوں کے خلاف ڈٹے رہے اور آخر کار انگریزوں سے لیز کا معاہدہ طے پایا افغانستاں تک رسائی والے خطے جیسے ڈیرہ غازیخان و ڈیرہ بگٹی کو بلوچ ریاست نے لیز پر دیا، مگر انگریزوں نے جاتے وقت معاہدے کی پاسداری نہ کرتے ہوئے بلوچ خطے کو بے دردی سے سندھ ،پنجاب ،سرحد ،ایران،افغانستان کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔