بلوچ اسٹوڈنٹس پا لیٹکس، انٹلیکچوئل کرائسز کا شکار
تحریر: حاجی حیدر
دی بلوچستان پوسٹ
اروندھتی رائے کے بقول ” ان غریبوں کے ہاں امن کا کیا مطلب ہے، جن کے وسائل لوٹے جارہے ہیں، اور وہ جن کی روزانہ کی زندگی، پانی، چھت اور بقاء سے بڑھ کر عزت نفس کی جنگ ہے ان کے لیے امن جنگ ہی ہے”
بلکل اسی طرح فرانس میں ساٹھ کی دہائی میں اٹھنے والی تحریک جس میں لوگوں کا نعرہ تھا کہ “Personal is politics ” آج ہم بھی ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں تمام تر انسانی جذبے سیاسی ہوچکے ہیں، یقیناً آج بلوچ کا رونا، ہنسنا، چیخنا اور چلانا سب کچھ سیاسی ہو چکا ہے۔ ویسے بھی آج کل کوئی چیز بھی غیر سیاسی نہیں ہے، لہٰذا یہ بیان کہ ہم سیاسی نہیں ہیں، یہ بذات خود ایک سیاسی بیان کے مترادف ہے۔
اکیسویں صدی سیاسی اور علمی صدی ہے، لیکن کیا وجہ ہے آج بلوچ اسٹوڈنٹس پولٹکیس ایک شدید انٹلیکچوئل کرائسز سے گذرہا ہے؟
کیا اسکی وجہ indigenous colonialism, collective Trauma, نیو لبرل پالیسی، مابعد نوآبادیاتی نظام، Monopoly یا Dichotomy ہیں؟
مانتا ہوں ہم ایک organic کرائسز سے گذر رہے ہیں لیکن اس سے زیادہ ہم ایک انٹلیکچوئل کشمکش کے شکار ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ طبقے، قوم، جنس کے اوپر سیاست ہورہی ہے، لیکن اس کے درمیان بھی ہمیں کوئی ڈائیلاگ نظر نہیں آتا۔ کیا بلوچ دانشوروں نے آج تک اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھا ہے کہ سماج کے اندر جو مزاحمتی سیاست ان رنگوں میں ہوتی ہے یا ان کے درمیان جو علیحدگی آج کے دور میں ہمیں نظر آتی ہے بلوچ اسٹوڈنٹس پالیٹکس کے درمیان اس علحیدگی کو ختم کرکے اس پورے مزاحمتی سیاست کو جوڑنے کی کوشش کیوں نہیں کی جارہی؟
کیا اس مسئلے کا حل کسی بھی بلوچ دانشور کے سیاسی فریم ورک میں موجود ہے؟ آخر کیا وجہ ہے بلوچ اسٹوڈنٹس اپنی ہی زمین پر ایک ڈاٸسپورا کی زندگی گذار رہے ہیں، اور اس پر آج تک کسی بھی دانشور نے کچھ بھی لکھنے کی کوشش تک نہیں کی؟ کیوں آج کے اسٹوڈنٹس کو ہمارے دانشوروں نے اپنی جذباتی تحریروں کے ذریعے Stockholm Syndrome کا شکار بنایا ہے، جس کی وجہ سے ایک طلباء آرگنائزیشن دوسرے آرگنائزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو بھی تیار نہیں۔
آج تک بلوچ دانشوروں نے بورژوا بھیٹک لگانے، اور طلباء آرگنائزیشنز کے پروگرامز میں گالیوں کے سوا اور کوئی نئی بات نہیں ڈالنے یا انہیں سمجھانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ آج بھی یہ دانشور کے بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کرکے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔ ایک سوشلزم کو مردہ گھوڑا کہتا ہے، تو دوسرا قوم پرستی کو بھرے پیٹ کا جھگڑا، یہاں دونوں کی تنقید ویسٹ سے امپورٹڈ شدہ ہے ایک سوشلزم کو رد کرتا ہے، تو دوسرا نیشنلزم کو برا بھلا کہتا ہے۔ جس کی وجہ سے دانشور ذاتی مفادات کو قومی سوال اور سوشلزم کے زمرے میں دیکھ کر کچھ بھی کر سکتے ہیں، جس پر کانٹ لکھتے ہیں “میں، میں اور تم، تم، تم انقلابی محبت کی موت ہے۔
میری اس تحریر کو پڑھنے کے بعد بے شک مجھے گالیاں دہیں لیکن عابد کے ان الفاظ کو ضرور یاد کرنا جس نے کہا تھا کہ “جب تک ہاں میں ہاں ملائیں آپ نہایت شریف ترین اعلٰی انسان سمجھے جاتے ہیں، جہاں ذرا اختلاف رائے پیدا ہوا، آپ منافق، احمق، بکاٶ کہلانے لگتے ہیں، بقراط، سقراط کے طعنے کس کر آپ کو ڈی مورالائیز کیا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کس طرح آپ اپنی رائے سے تاٸب ہوجائیں یا ویسا ہی سوچنے اور بولنے لگیں جیسا ہم سوچتے ہیں”
لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ مکالمے کا آغاز کیا جائے، ان پر بے رحمانہ تنقید ہونی چاہیئے اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشنز کو جن بحرانوں کا سامنا ہے اس پر نوجوانوں کو Re-Think کرنے کی ضروت ہے اور معاشرے میں تحریک پیدا کرنے کی ضرورت ہے جہاں تنقید اور اختلاف رائے میں فرق روا کیا جائے۔
بس آخر میں ہی کہوں گا جس طرح جون ایلیا نے کہا تھا کہ
“ایک ہی حادثہ تو ہے وہ یہ ہے کہ آج تک بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔