بلوچستان میں طلباء حقوق کی جنگ
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان جہاں صحت، تعلیم، معیشیت، گذشتہ کئی دہایوں سے زبوں حالی کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ یہ استحصال منظم منصوبہ بندی کے تحت کی جارہی ہے۔ یہاں چھوٹی سے چھوٹی بیماری جان لیوا ہوتی ہے۔ ہسپتال اور بنیادی صحت کے مراکز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سالانہ ہزاروں عورتیں زچگی کے دوران اس جہان فانی سے رخصت ہوتی ہیں، کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ان ماوں کے مرنے کے بعد انکے دیگر بچوں اور خاندان اور معاشرہ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہونگے؟ ایک ماں کا سایہ چھن جانے کے بعد یتیم بچوں کی کیا زندگی رہ جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب شاید صرف اور صرف وہ بچے یا خاندان دے سکیں جن پر یہ عذاب ریاستی کرموں کی وجہ سے نازل ہوتی ہے۔ یرقان ، ملیریا، کینسر جیسی ناسور بلوچستان کے باسیوں کو نوچ نوچ کر موت کی آغوش تک پہنچا رہی ہیں۔ سالانہ ہزاروں زندگیاں مایوسی کی تاریکیوں کی نظر ہوجاتی ہیں۔ اس قتل عام کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ ریاست نہیں جو بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کے طریقوں سے تو واقف ہے لیکن یہاں بسنے والے عوام کے جینے مرنے سے لاتعلق ہے۔
بلوچستان کے کثیر آبادی کی صحت کے شعبہ کی ضروریات پوری کرنے والی اکلوتی بولان میڈیکل یونیورسٹی ، ریاست کیلئے ایک تعلیمی کاروبار بن چکی ہے۔ یہاں کی میڈیکل کی نشستوں کو سیلف فنانس اسکیم کے تحت غیر مقامی افراد کو فروخت کی جاتی ہیں۔ بچی کچھی نشستیں جو مقامی طلباء و طلبات حاصل کرکے معاشی مسائل کے باوجود اس مقام تک پہنچ پاتے ہیں ان پر فیسوں میں اضافہ کرکے اعلیٰ تعلیم کا حق چھینا جارہا ہے۔ طلباء و طالبات کو کھبی ہاسٹل میں رہائش کے نام پر پابند سلاسل کی جاتی ہے تو کھبی فیسوں میں اضافہ کرکے طلباء سے سرکاری دھان وصول کی جاتی ہے۔ جو طلباء ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں انکو ریاستی ادارے سرکاری سرپرستی میں پلنے والے اغواء کاروں کو بیچ دیتے ہیں، جو زیادہ سماجی کاموں میں متحرک ہوتے ہیں انکو ڈاکٹر دین محمد اور اکبر مری کی طرح نشان عبرت بنا دی جاتی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں ریاست کی معشیت کو درپیش مسائل اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے بلوچستان میں واقع ریکوڈیک کی معدنیات جن میں سونا سرفہرست ہے بیچ کر قرضوں کی ادئیگی کا اعلان کیا تھا۔ ریاست اسوقت قابض ہے جو چاہے کرسکتی ہے، اگر بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار سے ایک ناکام و معاشی طور پر دیوالیہ ریاست چل سکتی ہے تو کیوں ایک تعلیمی ادارے کو چلانے کیلیے حکومت کے پاس فنڈز نہیں؟ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں بلوچستان میں ایک بھی عالمی سطح کی معیاری کالج و یونیورسٹی نہیں۔ بلوچستان کو ایک مذبح خانہ بنا دیا گیا ہے جس میں مقامی آبادی کو مختف شکلوں میں ذبح کیا جارہا ہے۔ طلباء جتنا کلاسوں میں حاضری نہیں لگا پاتے اس سے زیادہ وقت ٹارچر سیلوں، جیلوں اور تھانوں میں گزارتے ہیں۔ نام نہاد ، کرپٹ اور غیر سیاسی لوگوں کو بلوچستان میں کٹھ پتلی حکومت دیکر یہاں کے مستقبل کو بے علمی اور بے شعوری کی زندگی گزارنے کی قصداً کوشش کی جارہی ہے۔
بلوچستان میں جاری تحریک آزادی کا بنیادی مقصد ہی ان مسائل اور انکے حل کیلئے ایک آزاد و خود مختیار بلوچستان کا قیام ہے۔ جہاں ریاست صحت و تعلیم، معشیت و تحفظ کے ساتھ روشن مستقبل کی گارنٹی ہوگی۔ جہاں ماوں و بچوں کو مکمل علاج کی سہولت ہوگی۔ یہاں طلباء کا تعلیمی استحصال نہ ہوگا بلکہ عالمی معیار کے تعلیمی ادارے قاہم کرکے انسانیت کی خدمت کی جائیگی۔ اس آزاد ریاست میں ڈاکٹر ہسپتالوں کی زینت ہونگے نہ کہ جیلوں اور تھانوں میں ہونگے۔ ایک ایسی ریاست جہاں مرد اور عورت کیلئے ترقی کے یکساں مواقع پیدا کی جائیگی، تعلیم و سیاست میں بلا جنسی تفریق کے ہر فرد کو موقع ملے گا۔
طلباء جہد کی تاریخ میں لاثانی مثالیں موجود ہیں۔ بلوچستان کے طلباء و طلبات ہمیشہ اپنا شعوری کردار ادا کرتے رہے ہیں، چاہے طلباء حقوق کی پاسبانی ہو یا جہد آزادی میں متحرک کردار ہو. تاریخ کے اس نازک موڑ پر جہاں ریاستی استحصال لوٹ مار اپنے عروج پر ہے طلباء کی ان حالات میں اپنے حقوق کیلیے کی جانیوالی جہد قابل قدر ہے۔ بلوچ بہنیں جو اس احتجاج میں صف اول کا کردار ادا کررہی ہیں انکے جذبات و جہد قابل دید و قابل تحسین ہے۔ بلوچستان میں بسنے والے تمام اقوام، زندگی کی تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد، قوم پرست و انسانی حقوق کی تنظیمیں طلبا و طلبات کی حقوق کی اس جنگ میں کامیابی کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔