براس کے کامیاب حملے اور شہید جنرل اسلم – چاکر بلوچ

433

براس کے کامیاب حملے اور شہید جنرل اسلم

تحریر: چاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بہت اعلیٰ مقام حاصل کرتے ہیں وہ لوگ جو اپنی سرزمین پر مرمٹتے ہیں، اپنے مقصد کے لیئے جان نچھاور کرتے ہیں اور یہی وہ واحد راستہ ہوتا ہے جس کے ذریعے ہم اپنے قوم کے سامنے سرخرو بھی ہوتے ہیں اور تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہوجاتے ہیں، اور یہ وہ لمحہ ہے جہاں ہمیں موقع ملتا ہے کہ ہم تاریخ میں اپنے لیے ایک مقام کا چناؤ کریں، موت تو برحق ہے لیکن ایک نہ ایک دن موت کو ضرور گلے لگانا ہے یا موت خود ہمیں گلے لگائے گا، تو کیوں نہ ہم کسی خاص مقصد کے لئے مریں یا قربان ہوں،بجائے بزدلی یا کسی اور بے مقصد موت کو گلے لگانے کے، جہاں نہ ہماری کوئی تاریخ ہو، نہ کوئی داستان، نہ کوئی پہچان ہو۔

لفظ شعور ہی وہ واحد عمل کا نام ہے، جو ہمیں اپنے ذاتی زندگی اور اپنے ایک چھوٹے دنیا سے نکال کر اجتماعی سوچ اور مثبت خیالات کی نشونما میں مدد اور کردار ادا کرتا ہے اور اس کے ساتھ یہی عمل “شعور” ہی ہے جو انسانیت کے لیے جینا مرنا اور ایک مقصد فکر و فلسفے کے ساتھ جوڑنا سکھاتا ہے، جہاں انسان ایک فکر و نظریے کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صحیح راستے کا انتخاب کرتا ہے، یہ وہ راستہ ہوتا ہے جہاں انسان ایک فکر و نظریے کے لیے ایک نیٹورک کے شکل میں اپنے بساط کے مطابق اپنے حصے کے کام کو سر انجام دینے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا ضمیر آخری وقت تک مطمئن اور پرعزم ہوتا ہے۔

جب بھی بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈ کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نامی تنظیم کے کاروائی سامنے آتے ہیں، تو یہی محسوس ہوتا کہ جنرل استاد اسلم بلوچ ہمارے درمیان آج بھی موجود ہیں اور وہ ہمیں یہ درس و تعلیمات دے رہے ہیں کہ دشمن تک اپنے رسائی کو مزید مظبوط کرنا، دشمن کو مزید نقصان اٹھانے پر مجبور کرنا ہے، استاد اسلم کے حوصلے ہمیشہ سنگتوں کے ہمت میں اضافے کا سبب ہیں بلکہ ان کے حوصلوں کو چٹان کی طرح مضبوط کرتا ہے۔

آج ہمیں اس بات پر فخر محسوس کرنا چاہیئے کہ ہمارے زندگانی میں جنرل اسلم بلوچ جیسے دلیر اور بہادر کردار کے مالک ہمارے درمیان میں آئے، استاد اسلم بلوچ کا کردار و عمل ایک ایسا پیکر تھا جس نے بلوچ جدوجہد برائے آزادی پر نمایاں اثرات ڈالے “براس” کی شکل میں تنظیموں کی اشتراک عمل یعنی بلوچ جہدکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھنا شہید جنرل استاد اسلم بلوچ کی دلی خواہش تھا، جس کو بلوچ مسلح تنظیموں کے سینئر لیڈر شپ نے اس خواب کو استاد اسلم کے زندگانی میں ہی پورا کرکے دکھایا اور براس کے نام سے ایک ہی صفوں میں ہمگام ہونے لگے۔

دشمن کی شاید یہ خام خیالی تھی کہ وہ استاد اسلم کو ہم سے جسمانی طور پر جدا کر کہ یہ کھیل یہیں ختم کرے گا لیکن دشمن اس گمان سے بلکل بھی واقف نہیں تھا کہ اسلم اب ایک سوچ کا نام بن چکا ہے، اسلم ایک فکر و نظریہ بن چکا ہے، بھلا کوئی کسی کے سوچ کو مار یا ختم کر سکتا ہے، شہید جنرل نے اپنے جیسے ہزاروں سربازوں کی تربیت کرکے پھر اس دنیا سے رخصت ہوئے، استاد اسلم بلوچ کی بہادری ہمت و جذبہ اور عظیم قربانی اب بلوچ کے اجتماعی دانش کا حصہ بن چکا ہے، جسے اب دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتا۔

آج ہم یہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ شہداء بلوچستان کا کاروان آگے بڑھ رہا ہے اور شہداء کے خون کی طاقت سے ہم جلد اپنے قومی منزل تک رسائی حاصل کریں گے اور اب بلوچ قوم کو اپنی عوامی طاقت اور شعور سے بحثیت ایک فریق کے دنیا کے سامنے جلد از جلد منوانا ہوگا۔

براس کی کاروائیاں نہ صرف شہداء کے خاندانوں کے لیئے باعث حوصلہ افزائی ہیں بلکہ اس کے مثبت نتائج ہمارے سوسائٹی خاص کر ہمارے قوم کے باشعور نوجوان نسل کے سوچ پر بھی مثبت اثرات چھوڑیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔