ایک سنہرہ، زندہ جاوداں باب – برمش بلوچ

548

ایک سنہرہ، زندہ جاوداں باب

تحریر: برمش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ تاریخ کی ورق گردانی کرتے وقت قربانی کے جذبے سے سرشار ہمیں سینکڑوں وطن زادے ملینگے جنہوں نے بہادری، شجاعت کی تاریخ رقم کرکے خون کا آخری قطرہ تک بہا کر تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑتے ہوئے ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔.

وطن کے ان بہادر سپوتوں میں سے ایک شہید دلجان (ٹک تیر) کے نام سے تاریخ کا ایک سنہرہ زندہ جاوداں باب ہے. جس نے بندوق اور قلم دونوں کو قومی غلامی سے نجات کیلئے موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور مسلح جہد کو دشمن کیلئے ایک انتہائی تکلیف دہ امر سمجھتے تھے لیکن دوسری جانب وہ جس قوم کو قومی غلامی سے نجات دلانے کیلئے بغاوت کا علم بلند کیا تھا، اس قوم کے نوجوان نسل میں اس قومی جنگ کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کیلئے انہوں نے اپنی تحریروں کے تسلسل کو بھی جاری رکھا۔ اس کی قلم کی نوک سے نکلے الفاظ یا بندوق کی بیرل سے نکلی گولی غرض دونوں کا ہدف بس ایک ہی تھا کہ قومی غلامی سے نجات اور قومی آزادی کا حصول کسی بھی طرح ممکن ہو اور وہ ان دونوں ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا فن بھی کیا خوب جانتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ میرے دوست کو تنظیم نے ان کی جنگی صلاحیتوں کے اعتراف میں ( ٹک تیر ) کا خطاب دیا

ضیاء (بچپن کا نام) بن کر اس نے معاشرے کو اپنی روشنی سے مستفید کی اور پھر مسلح جہد میں وطن زادوں کا دل اور جان دلجان بن گیا اور وطن اور اہل وطن سے عشق نے بولان اور شور پارود کے سنگر نے گوریلا جنگ نے میرے دل و جان کو دلجان سے ٹک تیر بنا دیا۔ وطن کی چاہ نے مٹی کے قرض نے، جہد مسلسل نے، قومی بیداری و شعوری پختگی نے اور آخری گولی کے فلسفے نے میرے دلجان کو شھید دلجان بلوچ کے اعلیٰ رتبے پر فائز کرکے ہم جیسے کمزور اعصاب کے مالک لوگوں کے سر فخر سے بلند کردیئے۔ واقعی وہ کردار کتنے عظیم ہوتے ہیں جو رہتی دنیا تک یاد کیئے جائیں گے، اصل میں یہ وہی لوگ ہیں، جو اپنی مرضی سے جیتے ہیں اور اس بےوفاء دنیا سے رخصت ہوتے وقت وہ موت کی دیوی کو بھی بڑی عالیشان طریقے سے گلے لگا کر عظیم سے عظیم تر رتبے پر فائز ہوکر تاریخ میں قومی آزادی کی تحریکوں کے ماتھے کی جھومر کے طور پر ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے-

یہاں پر میں اس امر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ نہ کہ میں کوئی لکھاری ہوں اور نہ اس سے پہلے چند الفاظ تحریر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جب انیس فروری والے دن یہ سیاہ ترین دن پر وطن کے فرزندان نے تراسانی زہری کے بےوفا خیر پر تاریخ رقم کرکے جسمانی طور پر ہم سے الوداع کہنے جارہے تھے اور جب مجھے اس حوالے سے اطلاع ملی تو بجائے مجھ پر یہ خبر قہر بنتا، نجانے میں اس کیفیت کو کیا نام دوں مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ میرے دلجان سے ملنے کا تڑپ و چاہت تھا کیونکہ ان کو دیکھنے کیلئے میری آنکھیں ترس گئیں تھی، چونکہ طویل عرصے سے مجھے ان کا دیدار نصیب نہیں ھوا تھا جب میں نے یہ احوال سنا تو مجھے ایسا لگا کہ مجھے دلجان نے بلایا ہے اور میں اس سے ملنے جارہا ہوں۔ اس طویل عرصے میں دیدار نصیب نہ ہو نے کی وجہ سے سینے میں لگی آگ آور پیاس کو بجھانے جارہا ہوں اور جب میں اس کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھتا ہوں کہ فرزندان وطن بڑی گہری نیند میں ہیں، جب انہیں مخاطب کیا تو آگے سے کسی نے جواب نہیں دیا، تو پھر بھی میں یہی سمجھ بیٹھا کہ ابھی تک دلجان مجھ سے ناراض ہے کیا اور اس کیفیت کو میں زندگی میں بھول سکوں گا اور نہ کہ سمجھ سکا۔

پھر دل میں یہ طے کرلیا اس کیفیت کو اپنے چند ٹوٹے الفاظ میں بیان کروں، تو بارہا کوشش کی لیکن جب بھی قلم اٹھایا تو ابھی چند سطور لکھا ہوتا تو پھر یہ خیال آتا کہ کہیں ایسا تو نہیں تمہارا قلم کاغذ دلجان اور بارگ جان کے ساتھ انصاف نہیں کرے گا، میں خود سے پوچھتا، کیا واقعی مجھ میں اتنی سکت ہے کہ عاشقان وطن کی عظیم قربانی کو وہ مقام دے سکتے ہو؟ جس کے وہ حقدار ہیں تو پھر مجھے ڈر لگتا تو میں قلم بند کرتا اور ایسا میں سینکڑوں بار کر چکا ہوں لیکن آج ہمت کرکے اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ضبط تحریر لارہا ہوں اگر کوئی کمی بیشی ہو تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں.

مختصراً یہ کہ اس طویل مسافت میں چاہے وہ زمانہ طالب علمی میں طلبہ سیاست ہو یا مسلح مزاحمت کا پرخطر کانٹے دار سفر یا قربانی سے بھری پڑی طویل و صبر آزما جہد، اس دوران جو چیز میں نے دلجان میں قدرے مشترک دیکھا وہ یہ کہ انہوں نے قومی اتحاد و یکجہتی کو انتہائی اہمیت دیتے رہے اور دشمن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کو اولیت دی بلکہ اپنے عمل اور کردار سے اس وقت ثابت کردیا جب کمانڈر بارگ جان اور کمانڈر دلجان ایک ہی مورچے سے دشمن پر آگ برسا رہے تھے اور دونوں کا تعلق دو مختلف آزادی پسند، زیر زمین مسلح تنظیموں سے تھا اور ایسے کامریڈز کی قربانی کا ثمر ہے کہ ایک دوسرے کے انتہائی سخت مخالفت کرنے والے لیڈر شپ نے اپنے شھید ساتھیوں کے ارمانوں کا لاج رکھ کر ان کی ادھورے خواب کو حقیقت کا روپ دھارنے کیلئے براس کی شکل میں ایک ایسا مضبوط اتحاد قائم کیا جو نہ صرف وقت کی اہم ضرورت بلکہ شہیدوں کی ارمانوں کی تکمیل اور حقیقی بلوچ قومی فوج کی تشکیل کا موجب بن کر قومی ریاست کی تشکیل کو ممکن بناتے ھوئے مہذب دنیا کے نقشے پر آذاد خودمختار قومی ریاست کا قیام ہی دراصل زمین زادوں کے عظیم تاریخی قربانیوں کا نعم البدل ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔