نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ آج عالمی یوم کینسر منایا جا رہا ہے اس دن کو کینسر میں مبتلا مریضوں کو زندگی کی امید دینی چاہیے. ترقی یافتہ ممالک کینسر میں مبتلا مریضوں کی ہرممکن بہتر علاج کروارہے ہیں اور یہ تحقیق بھی کررہے کہ کینسر کے بڑھتے ہوئے تعداد کو کس طرح سے کم یا کنٹرول کیا جائے تیسرے درجے کے ممالک بھی کینسر سے نمٹنے کے لیے کوشیش ہورہے ہیں لیکن بلوچستان اس وقت کینسر کی شدید لپیٹ میں ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں بریسٹ کینسر، خون کا کینسر، منہ کا کینسر، گردوں کا کینسر اور ہڈیوں کے کینسر کے مریض بڑی تعداد میں موجود ہیں، بلوچستان میں کینسر کے بڑھنے کی ایک خاص وجہ ایٹمی دھماکہ ہے جیسے سُنہ 1998 میں چاغی کے پہاڑی سلسلے راسکو میں کیا گیا اُس دھماکہ کے بعد سے بلوچستان میں کینسر بہت تیزی سے بڑھ گئی ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ ایٹمی دھماکے سے صرف کینسر نہیں پھیلا بلکہ تھلیسمیا، جلد کی بیماری، سانس کی بیماری، سینے کی بیماری اور آنکھوں کی بیماریاں بھی بلوچستان میں ہر جگہ پھیل چکے ہیں۔ ایٹمی دھماکے کرنے والوں کو بلوچستان کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے بلوچستان ان کے لیئے ایک تجربہ گاہ ہے وہ ایٹمی دھماکے کی صورت میں ہو، پراکسی وار ہو یا معاشی طور پر ہو بلوچستان کا استحصال ہر طرح سے کیا گیا ہے اور جن لوگوں نے ان کا ساتھ دیا ہے وہ ضرور جواب دینے کے پابند ہیں آج نہیں تو کل ان سے جواب طلب کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں کینسر ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے عوام دیگر شہروں میں اپنے مریضوں کو علاج کے لیئے لے جاتے ہیں جہاں وہ لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، جن کو دیگر شہروں میں علاج کی سکت نہیں ان کے مریض بغیر علاج کے جان دے دیتے ہیں حالیہ دنوں کوئٹہ میں کینسر کے ہسپتال کا افتتاح کسی شوشا سے کم نہیں تھا ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ حکومت اگر ایک پُل بھی بناتی ہے تو اس میں 5 سے 8 سال لگا لیتی ہے کینسر ہسپتال کی تعمیر بھی کم از کم دس سال لے گی جوکہ ایک مذاق سے کم نہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ جتنے بھی حکومتیں گزری ہیں سب نے وفاداریاں نبھانے کی خاطر اپنے ہی لوگوں کا بری طرح سے استحصال کیا ہے۔ چند پیسوں کی خاطر اپنے ضمیر کو بیچ ڈالتے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ انہوں نے ایک قوم کی شناخت اور حیثیت کو بیچ ڈالا ہے۔ بلوچستان میں حقیقی سیاست کرنے والوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے تاکہ نااہل لوگوں کو سرفیس میں جگہ دی جائے تاکہ قوم کو سیاسی آگاہی سے دور رکھیں موجودہ مثال لیبر یونین اور طلباء سیاست پر پابندی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ این ڈی پی نے ہمیشہ سے بلوچستان میں شعوری سیاست کی بات کی ہے اور اس سوچ پر عمل پیرا ہے۔بلوچستان میں کینسر کے بڑھتے ہوئے رجان کو روکنے کے لیئے حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک سوچی سمجھی چال ہے، یہ بلوچ قوم کی نسل کشی ہے۔ بلوچ عوام کو مایوس کیا جارہا ہے تاکہ ان کو یہ سب ان کی قسمت کا فیصلہ لگے مگر حقیقتاً یہ قسمت کا فیصلہ نہیں بلکہ بنایا ہوا چال ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ بلوچستان لاوارث نہیں ہے بلوچستان کے حقیقی وارث حق اور سچ کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔