انٹرٹینمنٹ یا عیاشی؟
تحریر: کاشف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہہاں شاید عیاشی کا لفظ استعمال کرنا درست نہ ہو، مگر کرنا پڑرہا ہے کیونکہ جو دیکھ رہا ہوں وہ ایک قسم کی عیاشی ہی تو ہے۔ اگر نہیں ہے، تو اس گستاخی کی معافی چاہوں گا کہ میرے دماغ میں عیاشی رچ بس گئی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے بلوچی میوزک نے، بلوچی زبان کے ادیبوں نے ایک انقلابی ردوم پکڑ لیا ہے، ہر مہینے، ہر سال کا اختتام ہو یا ابتداء ہو، ملیر سے لیاری تک لیاری سے کیچ تک ہمارے فنکاروں کی یاد میں، انکے کردار کی سلامی میں آئے دن پروگرام منعقد کئے جارہے ہیں۔ بے شک یہ بہت اعلیٰ عمل ہے کہ زبان کی ترقی و ترویج کے لئے فنکاروں، ادیبوں اور شاعروں کا کردار عظیم ہے اور انکی حوصلہ افزائی کرنا ہر ایک فرد کا فرض ہے۔ یہ ترقی یافتہ قوموں کی ہے نشانی ہے، شاید ہم اپنے حیات فنکاروں اور ادیبوں کی قدر کرتے اور انہیں ہر ممکن مورل سپورٹ مہیا کرنے کی بھی کوشش میں لگیں۔
ہر آنے والے شخص کے لئے آخر سجی سجائی محفل دیکھنا اور خود کو چند لمحوں کے لئے انٹرٹین کرنا بھی ان پروگرامز کا ایک مقصد ہوگا کیونکہ شہری زندگی میں تھکے ہارے بیچارے لوگ ذہنی الجھنوں سے تنگ، ڈپریشن جیسے موذی مرض میں مبتلا لوگوں کے لئے یہ ایک بہترین طریقہ کار ہے کہ انہیں انٹرٹین کیا جاسکے تاکہ لوگ اپنے مایوسی کی خول سے باہر نکل کر بھی سوچیں اور اپنے لئے تفریح کا سامان بھی مہیا کریں۔ اب تو یہ بات اور بھی خوشی کی ہے کہ کراچی آرٹس کونسل نے ہر بلوچی پروگرام کے لئے ہال مفت یا آدھی قیمت میں دینے کا وعدہ جو کرلیا، شکریہ آرٹس کونسل ہمارے لئے اپنے دل میں احساسی و جذباتی لگاؤ پیدا کرنے کے لئے اور ہمیں اپنے ٹیلنٹ کو دکھانے کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرنے لئے۔ ہم بلوچ آپکے اس محبت کو کبھی بھلا نہیں پائیں گے ۔
ابھی پچھلے ہر ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا، واقعی پروگرامز بہترین انتظامی امور کے ساتھ اور بہترین ڈسپلن کو برقرار رکھتے ہوئے ہر روز اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ الحمدللہ کراچی آرٹس کونسل کے صفائی کرنے والے بھی یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہونگے کہ واہ کیا دیوان تھا، اسی قومی ترانے پہ بھی کبھی شہداء کی یاد میں خموشی اختیار کی جاتی تھی، اب تو قومی ترانے کا عزت اتنا بلند و بالا ہوگیا کہ اقبال کا شاہین بھی دیکھ کر حیران ہوتا ہوگا کہ یہ اتنی بلندی پہ کیسے پہنچ گیا کیونکہ سامعین اپنے قومی ترانے کی عزت و شان میں دما دم مست قلندر کررہے ہیں، جھوم رہےہیں، ناچ رہےہیں اور اسٹیج پہ کھڑا فنکار اپنے قومی ترانے کی شان کو اور بلندیوں پر پہنچانے کی لئے کبھی نصرت فتح علی خان تو کبھی مہدی حسن بن جاتا ہے۔ اگر استاد مجید گوادری یہ دیکھتے تو وہ خوشی سے جھومتے کہ واقعی میں نے ایک عظیم ترانہ لکھ کر ان لوگوں کے جھومنے اور تفریح کیلئے سامان مہیا کردیا معذرت استاد مجید گوادری۔
اور ان پروگرامز میں آنے والے لوگوں کے بارے میں قیاس آرائی نہ کرتے ہوئے اگر بات کروں تو 80٪ لوگوں کا تعلق بلوچستان کے مختلف علاقوں سے باقی 10٪ لیاری و ملیر کے علاقوں سے آتے ہونگے یا کراچی کے دوسرے علاقوں سے۔ ہاں تو بلوچستان واہ کیا خطہ ہے خدا بھی دیکھ کر حیران ہوتا ہوگا کہ اسکی اپنی کاریگری شیشے کے محل، صاف ستھرا ساحل، خوبصورت و چار دورائی شاہراہیں، امن و امان کا ایسا مثال جو جنت میں بھی نہ ہو۔ اور ان پروگرامز میں آنے والے 80٪ لوگ ہہاں کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ ہاں تو ھم بلوچستان کے بارے میں بات کررہے تھے ۔ خیر بات کیا کرتا فضول لفاظی سے گریز کرتے ہوئے اگر آپ کو کبھی جانے کا اتفاق ہوا تو شناختی علامت بھول مت جانا خیر یہ جھومنے والے ایسے ہی نہیں جھومتے، ہر پانچ میں سے ایک بندہ شراب کے نشے میں مست ہو کر جھوم رہا ہوتا ہے اور تو اور ہر پانچ میں سے ایک کے پاس آب زم زم کا بوتل ہاتھ میں ہوتا اور بڑے وثوق سے اپنے چہرے کا رنگ لال پیلا کرکے گھونٹ لگا رہا ہوتا ہے۔
خیر یہ بیچارے کیا کریں، تعلیمی اداروں کی ناقص صورتحال، ٹریفک کا شور، دکانداروں کے جھگڑے، پانی , گیس و بجلی و رہائش کا مسئلہ بیچارے ہہاں آکر تھوڑی مستی کرلیں تو کیا حرج؟ واقعی کوئی حرج نہیں آخر ہر انسان کو آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے تفریح کا سامان خود پیدا کرسکتا ہے خواہ اس سے کسی کے شان میں یا کسی کا کوئی رینک یا کسی کا کوئی مورل زد میں آتا ہے تو اس فرد کو کیا غرض کیونکہ وہ تو اپنے لئے زندہ ہے خیر یہ تو ہے ۔
اکثر یہ دیکھ کر حیران ہوجاتا ہوں کہ بلوچستان کے اتنے ترقی یافتہ ہونے کے باوجود ان لوگوں کا ہجوم کراچی کے ہر چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں میں ہر چھوٹے بڑے اسپتالوں میں ہر شاپنگ مال میں کیونکر نظر آتے ہیں، سول سے لے کر آغا خان میں ہر دس میں سے ایک انسان کا تعلق بلوچستان کے کسی علاقے سے ہوگا، کینسر یا حادثے کا شکار کراچی پریس کلب میں بیٹھے ماما قدیر کے پاس لاپتہ ہونے والے اکثریت کا اغواء ہونے کا مقام بلوچستان ملے گا، ہر بازار میں آپ کو بلوچ لازماً ملیں گے، یہاں حیران ہونے کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ جنت چھوڑ کر یہاں انسانوں کے بکواس ترین شہر کراچی میں کیونکہ پڑے ہوئے ہیں؟ خیر اسکا جواب تو انہیں کے پاس ہوگا۔ کراچی یونیورسٹی سے اقراء یونیورسٹی تک اور ہر کالج و 0 level کے اسکولز میں آپ کو بلوچ طالب علم پڑھتے ہوئے ملیں گے، خیر تعلیم تو ترقی کے سفر کا اول سیڑھی ہے۔
کبھی کبھی سوشل میڈیا میں دل دہلا دینے والے خبر ملتے تھے، ایک وقت تھا اب وہ وقت گذر گیا، جی ہاں یہ باتیں اب دوسری دنیا کی ہیں۔ یوں یہ خبریں پرنٹ میڈیا سے الیکڑانک میڈیا کی زینت بنتے تھے۔
– حب چوکی کے مقام پر پنجگور سے آتے ہوئے مسافر بس حادثے کا شکار تیس سے زائد لوگ جھلس گئے ۔
– مرگاپ و بلوچستان کے دیگر حصوں میں مسخ شدہ لاشیں برآمد ناقابلِ شناخت۔
– خضدار توتک کے مقام سے اجتماعی قبر سے 200 کے قریب لاشیں ملی ۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن، مقامی ذرائع کے مطابق تمام مرد فوجی کیمپ منتقل کئے گئے۔
– گوادر سی پیک کی وجہ سے مقامی آبادیاں ترقی کی زد میں آکر پینے کے پانی اور بنیادی سہولیات سے محروم۔
– کوئٹہ، خاران، تربت، کراچی، مند، واشک، ڈیرہ بگٹی و گوادر سے 20 افراد کو نامعلوم افراد نے اغواء کرلیا۔
– اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے لواحقین کا کوئٹہ ٹو اسلام آباد پیدل مارچ۔
– بوڑھی ماں اپنے لاپتہ بیٹے کے انتظار میں مر گئی ہے۔
ہر سال بارہ ہزار افراد کینسر جیسے جان لیواء مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
– بلوچستان کی خونی شاہراہیں ہر سال دس ہزار کے قریب لوگوں کو موت کے گھات اتار دیتی ہے۔
– بلوچستان یونیورسٹی کا پروفیسر سریاب روڈ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق۔
– بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد۔
– ہر سال منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اصافہ ہیروئن اور تریاق کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
اور ہمارے لئے بے حسی کا مقام یہ ہے کہ ہم زندہ ہیں اور اسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں، کوئی شک نہیں ۔ آرٹس کونسل آف کراچی کا شکریہ ہمیں شراب پینے کے لئے ہالز دینے کا۔ اور یہ جھومنے والے اس ماضی کے بلوچستان سے تعلق نہیں رکھتے کیونکہ اگر انکا تعلق اس قوم سے ہوتا جو گھر سے باہر تک سفر سے نیند تک موت کی آغوش میں جارہا ہے اسکے نوجوان ایسے نہیں ہوتے۔
خیر ان باتوں کا ہمارے حال سے کوئی وابستگی نہیں یہ ماضی کی باتیں ہے، جب انسان رہتے تھے اس خطے میں اور یہ زمانہ آج سے تقریباً دس ہزار سال پہلے کی ہے۔ اب تو بلوچستان کے لوگ خوشحال ہیں، بے روزگاری سے خود کشی نہیں کرتے اور نا ہی جلاوطنی کی زندگی گذار رہیں ہیں۔ تبھی تو نوجوان نشے میں دھت دنیا و مافیا سے بے خبر ناچ رہے ہیں۔ اور یہی ہے قوم کا اثاثہ، میراث انہی جھومتے کندھوں نے ہر ظلم و جبر کا سامنا کرکے ہمیں اس مقام تک پہنچایا کہ اب کوئی لانگ مارچ نہیں کرتا کوئی جھلس کر نہیں مرتا، کوئی کینسر میں مبتلا نہیں ہوتا، کوئی لاپتہ نہیں ہوتا، اب زمیں انسانی اعضاء نہیں اگاتی۔
چلو جھومتے ہیں شاید یہ غم بھی ختم ہو جائیں۔
نا علمء شوق نا قومء دوستی نا سد دنیا اے
چوشے بے جوہر و جاں دوذ و سستے نوجوان سوچ
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔