انور ساجدی کی تحریر اور اس پر ہونے والی تنقید کا ایک جائزہ – خالد ولید سیفی

802

انور ساجدی کی تحریر اور اس پر ہونے والی تنقید کا ایک جائزہ

تحریر: خالد ولید سیفی

دی بلوچستان پوسٹ

تنظیمی سفر کی وجہ سے انور ساجدی کا وہ کالم نہیں پڑھ سکا تھا جو سوشل میڈیا پر زیربحث ہے جسے سوشل میڈیا کے ایک معروف بلوچ دانشور اور بلاگر نے مبہم تک قرار دے کر اس پر سوالیہ نشان لگادیا تھا اور انور ساجدی کی جانب سے بلوچ کلچر ڈے کی مخالفت پر بھی تنقید کی گئی ہے تھی۔

تاہم آج سوشل میڈیا پر پورا کالم پڑھنے کو ملا جس کے بعد مناسب سمجھا کہ اس پر چند سطریں لکھ دوں۔

جہاں تک کلچر ڈے پر انور ساجدی کے موقف کو رد کرنے کا سوال ہے تو یہ دو افراد یا دو طبقوں کی الگ الگ رائے ہوسکتی ہے، اور اس پر بحث کی گنجائش موجود ہے، جب سے بلوچ کلچر ڈے شروع کیا گیا ہے بطور بلوچ مجھے یہ کبھی ناپسند نہیں رہا ہے مگر لاکھ کوشش کے باجود کبھی پسند بھی نہیں آیا ہے۔۔ناپسند اس لیے نہیں رہا کہ سماجی گھٹن میں ایک دن کے لیے ہی سہی لوگوں کو تفریح طبع کا سامان فراہم ہوتا ہے اور پسند اس لیے نہیں آیا کہ اس میں بحیثیت قوم، بلوچ کے لیے کوئی پیغام نہیں ہے اور یہ دن اپنے جلو میں کوئی خاص ہدف بھی نہیں رکھتا ہے، اور خطرہ یہ ہے کہ اس دن کو ہائی جیک کرکے اسے بلوچ سیاسی و قومی گھٹن کے لیے ایگزاسٹ بنانے کی کوشش کی جائے ( بلکہ کوشش کی جارہی ہے) البتہ بلوچ حالت سوگ میں ہے، اسے جشن منانا یا خوشیاں کرنا زیب نہیں دیتا اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے۔

دوسری بات کہ یہ کالم مبہم ہے کیونکہ ایک جگہ وہ این جی اوز کو سیاست کے لیے زہر سمجھتے ہیں اور خود دوسری جگہ وہ ایک سوشل فورس کی تشکیل کی بات کرتے ہیں جو ثقافتی انقلاب برپا کرے، میرے خیال میں ان دونوں باتوں یا تصورات میں کوئی ابہام نہیں ہے، جس جملے میں این جی اوز سے سیاست کو خطرہ قرار دیا جا رہا ہے وہ دراصل نظریاتی سیاست ہے جو ہمیشہ بلوچستان کے ایک طبقے کا ورثہ رہا ہے، اور جس سیاست کو نہ کرنے یا اس سے دور رہنے کی بات کی جارہی ہے وہ موجودہ روایتی سیاست ہے جسے اس وقت آسماں بناکر پیش کیا جارہا ہے۔

کالم کا مرکزی خیال جہاں تک میں نے سمجھنے کی کوشش کی ہے، یہی ہے کہ فی الوقت جب نظریاتی سیاست کی تمام راہیں مسدود کرکے اسے شجر ممنوعہ بنایا گیا ہے تو نوجوان نسل کو کلچرل، این جی اوز یا سول سوسائٹیز کے نام پر موجود پلیٹ فارمز پر خود کو غیرسیاسی سوچ کے حوالے کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ وہ خود ایک سوشل فورس کی تشکیل کریں جو روایتی سیاست سے دور رہ کر ثقافتی انقلاب برپا کرے، وہ ثقافتی انقلاب کیا ہے اس کی وضاحت شاید انور ساجدی کے اگلے کالموں میں ہوتا رہے لیکن ایک بات اس کالم میں واضح ہے کہ انور ساجدی اس کلچر ڈے کو بطور ثقافت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس میں محض تفریح طبع کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ثقافتی انقلاب ایک ہمہ جہت تصور ہے جس میں قوم کے وسائل سے مسائل تک، تاریخ سے جغرافیہ تک، مزاحمتی ادب سے رومانوی لوک داستانوں تک، کل سے آج تک۔۔۔اور مستقبل کی پیش بندیوں سے لیکر خطرات سے آگاہی اور ان کے تدارک کی منصوبہ بندی تک۔۔سب کچھ شامل ہوگا۔۔

انور ساجدی اگر اپنے آنے والے کالمز میں اس تصور کی پرتیں مذید کھول کر بیان کریں تو یہ ان نوجوانوں کے لیے مذید تحریک کا سبب بنے گا جو ایک دورائے پر کھڑے ہیں، یعنی وہ نہ فی الوقت نظریاتی سیاست کرسکتے ہیں اور نہ ہی روایتی یا ریاستی سیاست کا حصہ بننا چاہتے ہیں بلکہ باامر مجبوری این جی اوز، سول سوسائٹیز اور اس طرح کے پلیٹ فارمز جو انہیں غیرسیاسی بنانے میں سرگرم عمل ہیں، کا حصہ بن کر اپنی صلاحتیوں کو خود کش جیکٹ پہنا دیتے ہیں۔۔۔اور نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن کی مثال بن کر جی رہے ہوتے ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت نوجوانوں کو دیگر سیاسی سرگرمیوں میں الجھاکر انہیں سیاست سے دور رکھنے کی کوششیں عرصہ دراز سے جاری ہیں، اگر یہ منصوبہ کامیاب رہا تو سمجھ لیں کہ بلوچستان کی اصل تباہی ابھی نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس دن شروع ہوگی جب یہاں کا نوجوان سیاست سے نفرت کرے گا اور غیرسیاسی سرگرمیوں میں اپنے اور قوم کی کامیابی ڈھونڈنے کی کوششوں میں لگا رہےگا ۔۔۔ سیاسی سوچ بلوچستان کے لیے ایک ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے جس دن یہ ڈھال نہ رہے تو پھر وہ دن قومی موت کا دن ہوگا۔

نوجوانوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاییے کہ اگرچہ وہ موجودہ روایتی سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتے ہیں، نہ بنیں۔۔مگر اپنی سیاسی سوچ کو این جی اوز اور سول سوسائٹیز ٹائپ کے پلیٹ فارمز کے حوالے بھی نہ کریں۔۔۔ان کی سوچ ہی اس سرزمین کی آخری امید ہے اور اس امید کو زندہ رہنا چاییے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔