اتحاد کے دو چمکتے ستارے، بارگ و دلجان ہمارے
تحریر: سنگت زید بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ جدوجہد آزادی میں ہزاروں ہونہار بلوچ نوجوانوں نے شعوری و فکری طور پر شامل ہوکر اپنا سب کچھ، اپنی ذات، زندگی، ہر سکون، گھر، فیملی، معصوم بچے، بوڑھے ماں باپ، دوست و احباب، زندگی کے تمام وہ ضرورت، خواہشات، رشتے، تعلیم، مسقبل کو خیر باد کرکے پہاڑوں کو اپنا مسکن بناکر اپنے مادر وطن بلوچستان کی دفاع و انسانیت کی سر بلندی کے لیئے قومی آزادی کے پرکٹھن راہ کا انتخاب کیا ۔ بے شک یہ ایک عظیم مقصد ہے، اس کاروان کے راہی عظیم تر ہوتے ہیں، جو اپنے مقصد کے لیے بے غرض بنا کسی ذاتی مفاد و خواہش کے بس اجتماعی قومی مفاد، قومی آزادی کے لیئے جدوجہد کرتے ہیں، جو انسانی برابری و انسانی وقار و سربلندی کا ضامن ہوتا ہے۔
آزادی اللہ تعالی کی عطإ کی ہوٸی عظیم نعمت ہے، جس کے بغیر کسی بھی قوم کا دین و مذہب، زبان و ثقافت، روایات سب کے سب تباہ و ختم ہوجاتے ہیں۔
انہی عظیم نوجوانوں میں دو چمکتے ستارے دلجان و بارگ جان تھے، جو بہادری، مخلصی، جفاکشی، ہمت، مہر و محبت، وفا و اتحاد، یکجہتی کے نشان تھے۔
جنہوں نے اپنی عملی جدوجہد سے بلوچ مسلح تنظیموں میں اتحاد و یکجہتی کے لیئے راہیں ہموار کیں، جیسے سقراط نے سب سے پہلے زہر کا پیالہ خود پیا، ٹھیک اسی طرح شہید بارگ جان و دلجان نے بھی بلوچ یکجہتی کے لیے سب سے پہلے ایک سنگر میں مشترکہ قابض دشمن کے خلاف ایک ساتھ جام شہادات نوش کرکے، بلوچ نوجوان جہد کاروں، لیڈر شپ، سب کو اپنے فکر و خیالات و تصور سے روشناس کیا، جو مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ سنگر سے ایک طاقت ہوکر، شہادت تک دشمن سے لڑنا تھا۔ انہوں نے ہر بلوچ، ہر جہد کار کو یکجہتی و ایک طاقت ایک سنگر ہونے پر متحد و متفق کردیا۔
جھالاوان کی سرزمین، شہداء کی سرزمین، خضدار جو کسی دور میں مزاحمت کا گڑھ تھا، دلجان کا شہر۔ شہید نورالحق بارگ جان جنکا تعلق خاران سے تھا اپنے ہم خیال نظریات رکھنے والے دلو کے ساتھ اسی دہرتی کے گھر گھر اپنا قومی پیغام، علم، شعور وزانت پہنچا رہے تھے۔ 19 فروری کے دن تراسانی کے مقام پر قابض دشمن کے ساتھ دو بدو جنگ میں طویل جھڑپ میں گولیاں ختم ہونے پر اپنی آخری گولیوں سے وطن کے لیے شھادات نوش کرگئے۔
الحمداللہ آج بلوچ قومی منتشر قوت یکجا و متحد ہے۔ ایک طاقت براس کے شکل موجود ہے، جو گراونڈ کے سنگتوں کی محنت و مخلصی سے بہت کم عرصے میں انتہائی اہم کام سر انجام دے چکاہے، بہت بڑے و منظم حملے کرچکا ہے، جو عالمی و علاقائی سطح پر بہت جلد مقبول ہوچکا۔ جو مایوسی کے اندھیرے، تاریک راتوں میں چمکتا ہوئے چاند کی مانند ہے، جسکے دو چمکتے ستارے بارگ و دلجان ہیں۔
بلوچ قوم اور دنیا کے دیگر مظلوم دوست، بلوچ دوست قوتوں کے لیے امید کی کرن اسی اتحاد سے وابستہ ہے، جو انشاللہ بلوچ شہدائے وطن کے خواب، مشن و مقصد کو منزل مقصود تک، ایک آزاد بلوچستان، ایک آزاد سماج و وطن تک سر کریگا۔ جہاں برابری ہوگی، حقوق و عزت کے اعتبار سے کوئی کسی سے کم نا ہو۔ کوئی سرداری فرسودہ نظام برٹش باقیات، قبائلیت کے نام پر جاگیرداری مسلط نا ہو، بلوچ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ قوم و ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرسکے اور دنیا میں ہم ایک پرامن و ترقی یافتہ آزاد قوم کی حثیت سے جانے جائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔