آہ! یوسف – کوہ دل بلوچ

386

آہ! یوسف

تحریر۔ کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں کہ یادیں ماضی میں لےجاکر پُرانے زخموں کو کُریدنے کے سوا اور کچھ کام نہیں آتے، مگر کچھ ایسی یادیں ہوتی ہیں جن کے زخم کُریدنے میں ایک الگ سی کیفیت ہوتی ہے، یہ کیفیت درد اور وحشت سے بھری ہوتی ہے، اس کے عالم میں رہ کر حواس اپنی جبلت کھو دیتا ہے. مگر یہی کیفیت پھر ایک دن ضمیر جگانے کا ذریعہ بن کر انسان کو مطمئن کر دیتے ہیں۔ انسان پھر ایسے کیفیتوں کو اپنا مقدر سمجھ کر ہمیشہ بچشم قبول کر لیتا ہے تاکہ ضمیر کو قوت بخشتا رہے، اسے مردہ ہونے نہیں دے. ایسے ہی ماضی کے چند یادیں آج ہمارے ضمیر کے آنگن میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، کانٹے جیسے چُھب رہے ہیں۔ درد و قہر اور سینے میں آگ بھڑکا رہے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے جیسے اس نرم اندام سے جوالا اٹھ رہے ہیں اور اُٹھ کر للکار رہے ہیں ضمیر کو جگا رہے ہیں.

ایک دن تین ساتھی میرے پاس آئے، مجھے میزبانی کا موقع عطا کردیا، ان تینوں ساتھیوں میں ایک سنگت یوسف بھی تھا، پہلی بار آپ سے دوسرے سنگتوں کے توسط سے ملنے کا موقع ملا تھا. وہ ہنس مکھ اور معصوم چہرہ مجھے آج بھی شدت سے یاد ہے، نہ جان پہچان تھا نہ کوئی شناسائی مگر اُس کے مسکان نے مجھے اُسی دن ہی اپنائیت کا احساس دلایا کہ یہ ہم بد قسمت راج کا ایک سنگر ہے، ایک چیدگ ہے، اور اس راج کے تاریخ کا محافظ اور نئی تاریخ کا نوشتکار بھی ہے. آپ کا ایک بہت خوبصورت عادت تھا، وہ ہمیشہ زانوں کو ہاتھوں میں دبا کر بیٹھتا تھا، کیا انداز تھا سنگت کے بات کرنے کا، اپنے تو اپنے کوئی غیر بھی اُس کے صحبت کو اپنے لئے نعمت تصور کرتا تھا۔ سنگت یوسف کی ایک ہنسی ہم جیسے لوگوں کے رات بھر کی دیوان سے بھی زیادہ چاشنی رکھتا تھا۔

سنگت یوسف الفاظ کی قحط تو ہر وقت میرے زہن پر اپنا قبضہ جمائے بیٹھا ہوتا ہے، جب آپ جیسے سنگتوں کے حق میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ سب کے کردار کے آگے میری الفاظ ختم ہونے لگتے ہیں، میں ایک ادنیٰ سا لکھاری آپ جیسے عظیم ہستیوں کے کردار پر لاکھ لکھنے کی کوشش کروں، پھر بھی آپ سب کے کردار کا حقیقی رُخ اپنے لفظوں سے بیان کرنے کااہل نہیں رکھتا، بس چند یادیں ہیں آپ سنگتوں کے اُن کو پیش کرکے چند لمحے خود سے ہم کلام ہونا محسوس ہوتا ہے، تب جاکر یہ قلم اُٹھاتا ہوں اور لکھنے بیٹھ جاتا ہوں کیونکہ یہ قلم دو ہستیوں کا تحفہ ہے اس قلم کی روانی میرا فریضہ ہے، میں بہت مقروض ہوں شہید دلوش اور شہید میرل نثار کا جن کے دیئے گئے کام میں مجھ سے ہر وقت کوتاہی سرزد ہوتا ہے۔ آج تک اپنے لکھے تحریروں میں وہ حق ادائی نہیں دیکھا، جس کا انہیں بہت زیادہ اُمید تھا لیکن پھر بھی آخری سانسوں کے لڑی تک اپنی اس کم اہلی میں لکھتا رہونگا. بس سنگت آپ مجھے معاف کرنا، اگر میں آپ کے کردار کو حقیقی معنوں میں پیش نہ کر سکوں.

وہ دن کچھ پل کا ملاقات تھا، میرے بہت اصرار کے باوجود بھی وہ مجھے میزبانی کا پورا حق ادا کرنے نہیں دیا اور پھر تینوں ساتھی اپنے منزل کی جانب محو سفر ہوئے.

یہ سنگت یوسف کا ہنر تھا، یا اُس کے ہنس مکھ چہرے کی کشش کہ ایک ملاقات کے بعد اس سے میرا رابطہ بحال ہوگیا، بہت عرصے بعد پھر یوسف سے ایک بار پھر ملاقات ہوا اس بار اس کےساتھ کافی وقت گذارنے کا موقع ملا سنگت یوسف ایک مہربان اور مخلص سنگت تھا، اُس کے انداز اور محو گفتگو سے یہ دلائل صاف نظر آتے کہ یہ کوئی معمولی ہستی نہیں ہے، اس کے مسکان کے پیچھے ایک درد ہے، جو اُسے ہر وقت ستاتا رہتا ہے۔ آپ کے خدمت و خواری سے محسوس ہوتا تھا کہ اس نوجوان نے قوم کے سارے دکھ درد کا بوجھ اپنے کندھوں پر محسوس کر لیا ہے، بہت ہی ذمہ داری سے اپنے ہر کام میں مگن نظر آتا۔ دوسری دفعہ جب سنگت کے دیوان سے چند وقت زیادہ لطف اُٹھانے کا موقع ملا تو کافی مسئلوں پر مزاق مزاق میں کئی باتیں ہوئیں، سنگت آپ فلانی شخص کو جانتے ہو جس کو مذہبی شدت پسند شفیق مینگل نے قتل کروایا؟ اُس کی لاش کی بے حرمتی کی اور لاش عورتوں کے حوالے کرکے اُس پر جو من چاہا کرتے رہے؟ سنگت مسکراتا ہوا کہنے لگا “اڑے نی امر اوفتے چاسہ؟” آپ انہیں کیسے جانتے ہو؟

ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ یوسف مُسکرا رہا ہو اور ہم اس چہرے کے درشن میں ہوتے ہوئے مسکان سے عاری ہوں، مسکراتے ہوئے میں نے کہا سنگت آپ جس علاقے سے ہو اُس کے ہر پتھر سے میں واقف ہوں، میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، سنگت آپ مذکورہ علاقے کے کس گاؤں سے ہو؟ گریشہ، کودگ، نال یا لیڑوی لوپ، سے ہو؟ اے قربان یوسف آپ کے بات کرنے کے انداز پر اور آپ کے مسکراہٹ پر مجھ جیسے ادنیٰ جہد کار ہزاروں صدقہ ہوں، مجھے یاد ہے آپ نے ہنستے مسکراتے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دباکر کہنے لگا “اڑے شوم نی ایجنسی والاس تو افیس دا علاقہ آتے داسکان ای خنتہ نُٹ” سنگت یوسف وہ چند لمحے جو آپ کے صحبت میں گذارے وہ میرے لئے اب ہر لمحہ ایک فخر کے ساتھ ساتھ درد کا بھی سماء ہوتے ہیں. تجھ سے تو اور بھی بہت سی باتیں کرنی تھی، گریشہ، نال، وڈھ، کودگ اور آواران کے صورت حال پر آپ سے تبصرہ کرنا تھا، تجھ سے جنگی ہنر پر بات کرنا تھا. سنگت آپ کے مُسکان سے لُطف اندوز ہونا تھا آپ کے معصومیت کو قریب سے دیکھنے کا آرزو تھا سنگت آپ کو اس طرح جانا نہیں چاہیئے تھا، لیکن غازی کرتا تو کیا کرتا بھائیوں کے صحبت سے زیادہ لُمہ وطن کی آہ و پکار اُسے بے چین کر رہا تھا۔ شہادت اور فتح ایک غازی کی میراث ہوتے ہیں اور سنگت آپ نے اپنے منزل کو طے کر لیا شہادت پاکر عظیم رتبے پر فائز ہوا.

سنگت یوسف آپ کے فکر، آپ کے مخلصی آپ کا اپنا پن، آپ کے ساتھ گذرے ہوئے لمحات اور آپ کے بے پناہ مہر و محبت کم از کم مجھ جیسے وطن کے غافل فرزند کو کبھی بھی غلامی جیسے بدبودار ضابطوں کو آسانی سے قبول کرنے نہیں دیں گے، تیرے ساتھ گذرے ہر ایک پل ہمارے ضمیر پر ایک ضرب ہوگا، جب ہم اندھیری راہوں میں گھرے ہوئے نظر آئیں گے آپ سنگتوں کے کردار ہمیں کبھی بھی بھٹکے ہوئے راہوں پر چلنے نہیں دیں گے.

مجھے یاد ہے آپ نے ایک سنگت کے چھوٹی سی غلطی پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُسے کم از کم ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا غلطیاں سرزد ہوتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ غلطی کو سدھارنے کے بجائے اور بھی بگاڑ دو، سنگت آپ ایک رہنما تھا سنگت جب تک آپ کے ساتھ رہا بس یہی شُبہہ رہا کہ آپ کا چہرہ سنگت زاہد بلوچ سے کافی ملتا جُلتا ہے، پھر کہتا میرا اندازہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور ایک دن کسی سنگت نے باتوں باتوں میں مجھے کہا کہ آپ نے کبھی یوسف کو غور سے دیکھا ہے اُس کا دروشُم کس کا حوالہ دے رہا ہے؟ میں نے اُنگلی ہونٹوں تلے دباتے ہوئے کہا یوسف ایک قابل ہستی کا ہوبہو فوٹو ہے مگر پھر بھی مطمئین نہیں ہوں کہ سنگت یوسف اُس خاندان سے ہے یا نہیں تو وہ سنگت بھی مسکراتا ہوا دھیمی آواز میں کہا یوسف لاپتہ سنگت زاہد کرد کا چھوٹا بھائی ہے. یہ سُن کر میں ایک پل کیلئے خاموش ہو گیا اور کہیں کھو گیا کہ بلوچ تحریک اب کافی مضبوط ہو چکا ہے، پھر خود کو کوستا رہا کہ تم اپنی کمزوریوں پر باریک بینی سے دیکھو تاکہ تجھے اندازہ ہو یہ تحریک نسل در نسل منتقل ہوتا آرہا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے.

جب سے سنگت یوسف کے شہادت کی خبر ملی ہے، میرے تخیل کا ہر لمحہ اُس کے مسکان اور معصوم چہرے سے ذرا بھی کہیں اور نہیں ہٹتا، ہم نے ایسے بھی ساتھی کھوئے ہیں جن کے پیروں کے دھول سے خوشبو کی مہک اُٹھتے تھے، ہم نے ایسے بھی ہستی کھوئے جن کے سہاگن کے ہاتھوں سے ابھی تک مہندی کا رنگ بھی اُترا ہوا نہیں ہے، مگر کیا کریں دشمن جب روز لُمہ وطن کے گود کو ہمارے ہی لہو سے رنگا رہی ہو تو وہاں رنگِ حنا کی وجود مٹ جاتی ہے پھر جنگ کے آگ میں کودنا پڑتا ہے تاکہ لُمہ وطن پر کوئی غیر بد نظر نہ رکھ سکے اور قوم و راج کی تشخص و بقاء پر آنچ نہ آئے اور پھر اسی ایثار کے خاطر ناجد سلیم یوسف دودا کے ہمراہ مہندی ہاتھوں پر گھر سے رخصت ہوتے ہیں مسکاتے ہوئے “رخصت اف اوارون” کہہ کر واپس مُڑنے کا گمان تک نہیں کرتے ہے اور پھر ایک دن راج پر قہر برستا ہے بلیدہ سے یہ خبر موصول ہوتی ہےکہ یوسف عرف دودا، ناجد عرف سلیم، میران عرف داد جان، دولت رسول عرف بہرام اور شکیل عرف ماما جنید دشمن کے بنائے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ اور مذہبی شدت پسندوں کے ساتھ لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔