گورنر بلوچستان اور وی سی بی یو ایم ایچ ایس کے تعلیم دشمن پالیسیاں
تحریر : فقیر پٹهان
دی بلوچستان پوسٹ
ہر دور حکومت میں بلوچستان تعلیم اور صحت سمیت دیگر شعبوں میں پاکستان کے دوسرے صوبوں سے زیادہ پسماندہ رہا ہے۔ بلوچستان میں ستر فیصد لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، مگر غربت کے باوجود والدین اپنے بچّوں کو تعلیم دینے کیلئے محنت مزدوری کرکے انکے تعلیمی عمل کو جاری کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، اسطرح بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے طلباء اپنے علم کے پیاس بجھانے کیلئے گھر بار چھوڑ کرکے کوئٹہ سمیت دوسرے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے خود کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرسکیں۔
شہر پہنچتے ہی طلبا کے مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے، سب سے پہلے تو رہائش کا مسئلہ، کوچنگ سنینٹرز میں داخلے اور فیس کی ادائیگی، رہائشگاہ سے اکیڈمی تک پیدل اور بسوں کا سفر کرتے کرتے طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہیں تاکہ انکو کسی میڈیکل کالج یا یونیورسٹی میں میرٹ کی سیٹوں پر داخلہ مل سکے اور وہ کم فیسوں پر اپنے تعلیمی سرگرمیوں کو جاری کرسکیں،اسطرح طلباء ان تمام مشکلات اور مصیبتوں کو سہتے ہوئے انٹری ٹیسٹ پاس کرتے ہوئے میرٹ کی سیٹوں پر انکا داخلہ ہوتا ہے،تو ادارے کے اندر آتے ہی انکو حقیقت کے برعکس صورتحال دیکھنے کو ملتا ہے۔
بلوچستان کا پہلا میڈیکل کالج بی ایم سی جسکو اب یونیورسٹی کا درجہ دے کر بی یو ایم ایچ ایس کا نام دیا گیا ہے ، مگر نام تبدیل کرنے سے کسی ادارے میں بہتری کی گنجائش نہیں جب تک ادارے کو مخلص اور ایماندار شخص کے ہاتھوں نہ دیا جائے۔ اسطرح بی یو ایم ایچ ایس کے وائس چانسلر کی ناقص کارکردگی اور اقربا پروری نے یونیورسٹی کی حالت زار کو پہلے سے زیادہ ابتر بنا دیا ، جہاں روز نئے مسائل و مشکلات جنم لیتے ہیں، کرپشن انتہا تک پہنچ چکی ہے ، اخبارات کی ترسیل پر پابندی لگائی گئی ہے تاکہ وہ ان اخبارات کے پیسوں کا بچت کرکے اپنے بینک بیلنس برابر کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے طلباء کو دنیا کے معاملات سے بے خبر کیا جاسکے۔
طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے کی زمہ داری کو بی یو ایم ایچ ایس وائس چانسلر نے اس حد تک بڑھا دی ہے جہاں روز نت نئے مشکلات ابھر کر سامنے آتے ہیں، یونیورسٹی کے لئے تعمیراتی فنڈز کو ہضم کرکے اپنے لیئے آفس تک نہیں بنا سکا جہاں وہ کمیونٹی میڈیسن ڈیپارٹمنٹ کو خالی کرکے اپنا آفس بنا چکا ہے،اور ڈیپارٹمنٹ کو ایک ایسی جگہ منتقل کیا گیا ہے جہاں طلباء کبھی ادھر اور کبھی ادھر جاتے جاتے حیران ہیں کہ وہ ڈیپارٹمنٹ کو تلاش کریں یا اپنے پڑھائی کو جاری کریں، اسطرح دن گزر کر وقت ضائع ہوجاتا ہے۔
دس، پندرہ دسمبر 2018 کو تمام پروفز کے کلاسز ختم ہوگئے اور کالج بند ہوگیا، طلبا نے امتحانات کی تیاریاں شروع کیں تو وائس چانسلر نے تعلیم دشمن پالیسیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے امتحانات کو چار سے چھ مہینے تک ملتوی کر دیا گیا تاکہ طلباء کے قیمتی وقت کو ضائع کیا جا سکے، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وی سی اپنے تعلیم دشمن پالیسیوں کے تسلسل کو آگے بڑھانے اور اور لوٹ کھسوٹ کی سرگرمیوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بغیر کسی نوٹیفیکشن کے کالج اور چاروں ہاسٹلز کو کم اخراجات کے نام پہ پورے ایک مہینے تک بند کر دیا، جس سے طلباء سراپا احتجاج رہے اور کالج کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ قائم کیا گیا۔
اسکے بعد بی یو ایم ایچ ایس وی سی اور رجسٹرار نے یونیفارم کے نام پر طلباء کے سامنے ایک اور مسئلہ کھڑا کرکے انکے تصاویر لیے اور رولنمبر نوٹ کرکے انکو بلیک میل کرنا اور بلاوجہ تنگ کرنا شروع کر دیا، تاکہ وہ کمیشن وصول کرسکے،
صوبائی حکومت کی طرف سے طلباء کو اسکالر شپ کی مد ماہانہ 6 ہزار جو سال کے 72 ہزار بنتے ہیں، وی سی نے اس اسکالرشپ کو ختم کردیا تاکہ طلباء معاشی طور پر کمزور ہو کر پڑھائی کے اخراجات پورا نہ کرسکیں اور پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔
بی ایم سی انٹری ٹیسٹ کو بغیر کسی نوٹیفیکیشن کے تین سے چار مہینے پہلے لیا گیا اور پھر چار مہینے گزرنے کے باوجود ڈسٹرکٹ میرٹ لسٹ کو آویزاں نہیں کیا گیام دسمبر کو نئے سیشن کی آمد پر داخلہ پالیسی کو پچھلے تمام پراسپیکٹس سے یکسر تبدیل کرکے ایک مختلف انداز میں سامنے لایا گیا جس کے اندر فیسوں میں بے تہاشا اضافہ ایک حیران کن عمل تھا، جن میں ہاسٹل فیس کو 5 ہزار سے بڑھاکر 26 ہزار کردیا ہے، ایڈمیشن فیس 10 ہزار سے 18 ہزار، اکیڈمک اور ویلفئر فیس کو 5 ہزار سے بڑھا کر 75 ہزار کردیا گیا ہے۔ اور فارنر سیٹوں کو اوپن میرٹ پر رکھ کر باقی تمام ڈویژنز کو ان سے محروم کر دیا گیا ہے،گذ شتہ چند دنوں سے کالج کو بند کر دیا گیا ہے، بی یو ایم ایچ ایس وی سی، رجسٹرار اور گورنر ان تمام مسائل کے زمہ دار ہیں۔
گورنمنٹ آف بلوچستان بے بس نظر آرہا ہے اور وہ اپنے دونوں ہاتھ اُٹهاکر کہتے ہیں کہ ہم اس معاملے میں گورنر کے سامنے کچھ نہیں کر سکتے، ان تمام صورتحال کو مدنظر رکھ کر طلباء کیلئے واحد اور جمہوری راستہ احتجاج کرنا اور کلاسز کا بائیکاٹ کرنا رہ گیا ہے، جس کو بروئے کار لاتے ہوئے طلباء تب تک احتجاج کریں گے جب تک انکے جائز مطالبات پورے نہیں ہونگے،کیونکہ فیسوں میں اس حد تک اضافہ سے غریب طلباء کیلئے پڑھائی کو جاری کرنا نا ممکن ہے۔ برحال یہ ایڈمیشن پالیسی اگر جاری رہا تو میرے ساتھ ساتھ کئی اور طلباء ایسے ہیں جو اس مہنگی تعلیم کے اخراجات کو پوری نہیں کرسکیں گے۔ جن کو مجبوراََ اپنی تعلیمی عمل چھوڑنا پڑے گا،اور انکا زمہ داری بی یو ایم ایچ ایس وی سی، رجسٹرار اور حکومت بلوچستان پر عائد ہوگی۔
سنا ہے اٹهارویں ترمیم اور بی یو ایم ایچ ایس دو ہزار سترہ ایکٹ ترمیم بهی ان کے بس کی بات نہیں- بی یو ایم ایچ ایس
اکیڈمک مسئلوں سے برا پڑا ہے،پی ایم ڈی سی کے مطابق ٓآئی اینڈ اینٹ دونوں فورتھ ائیر میں ہیں اور بی یو ایم ایچ ایس ملک میں واحد میڈیکل اداره ہے جس میں یہ دونوں نصاب فائنل ائیر میں ہیں جس کی وجہ سے فائنل ائیر میں اسٹوڈنٹس پر بوجھ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اوراسکے ساتھ ساتھ مارچ کے مہینے میں سیشن ختم کرنے اور وقت سے پہلے امتحان لینے کا اعلان کر دیا گیا جس کی وجہ سے طلباء کے کندھوں پر اور زیادہ بوجھ رکھ دیئے ہیں، اور انکو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
ان تمام مسائل کو اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ وی سی اپنے گروپ کے ساتھ کرپشن کو طول دینے کیلئے طلباء کی تعلیمی ماحول کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔
ہم بے بس اور لاچار حکومت بلوچستان سے ایک مرتبہ پھر درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے منصب کی زمہ دارویوں کو بروئے کار لاکر اپنے اختیارات کا استعمال کرکے ہمارے تعلیمی ماحول کو اس نا اہل انتظامیہ کے ہاتھوں برباد ہونے سے بچائیں تاکہ ہمارا قیمتی وقت ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ضائع نہ ہو، اگر بلوچستان حکومت اسی طرح بے بس اور لاچاری کا مظاہرہ کرتا رہا تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ تعلیم دشمن پالیسی میں حکومت بلوچستان بھی برابر کا شریک ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔