کچھ الفاظ سفر خان کی تحریر کے جواب میں – سراج نور کہلکوری

688

کچھ الفاظ سفرخان کی تحریرکے جواب میں

تحریر: سراج نور کہلکوری

دی بلوچستان پوسٹ

میں نے ریڈیو زرمبش بلوچی کے متعلق کچھ تحریر کیا تھا، میں نےتحریر میں زبان کی اہمیت کے بارے میں تذکرہ کیا تھا۔ اس جدید دور میں زبان کی اہمیت کے بارے میں لکھا تھا اور بلوچی کے مزن نامے شاعر، ادیب، لکھاری سید ہاشمی کی ایک کتاب کی مثال پیش کی تھی، جس میں واجہ سیدہاشمی نے لکھا تھا کہ “میں بلوچی زبان کو رومن رسم الخط پر کام نہیں کر سکا لیکن اگر کوئی رومن پر کام کرے، یہ زبان کی ترقی ہوگی” ایک عالم انسان مستقبل کے بارے میں جانکاری رکھتا ہے، میں نے بھی یہی لکھا تھا کہ اگر کوئی رومن پر کام کرتا ہے تو یہ اچھی پیشرفت ہو گی۔

دوسری جانب اُس تحریر میں اومان کے سلطان کے موت کے متعلق کچھ تحریر کیا تھا کہ ریڈیو زرمبش پر اگر انکے صرف موت کے بارے میں ذکر ہوتا تو یہ ایک نیوز بنتا لیکن انکے تعریف میں کلمات کہنا نامنا سب عمل ہے، شہید حمید بلوچ نے اومان کے فوج میں بھرتی کی مخالفت کی تھی اور اس لئے انکو پھانسی ہوا تھا۔ میرے تحریر کی اہم باتیں یہی تھیں، یہ باتیں یہاں دوبارہ لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ لوگ سمجھ سکیں کہ سفر خان کی بے جا تنقید کرنے کا مطلب کیا ہے۔

رہی بات آزاد میڈیا کی بات، میرے خیال میں سفر خان خود اپنے جذبات بھری تحریر میں کہہ رہا یے کہ دنیا میں کہیں بھی میڈیا آزاد نہیں تو ایک غلام قوم کے ایک سوشل میڈیا پر چلنے والے پیج کو آزاد میڈیا کہنا کہاں کا انصاف ہے؟ بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی دبی ہوئی آواز کے بارے میں لکھیں اور بولیں زیادہ مناسب ہے، یہی دنیا کا اصول ہے، خبر نہیں سفر خان کس دنیا میں رہ رہے ہیں قوم جذبات سے نہیں علم و زانت سے کامیابی کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔

میں شکریہ ادا کرتا ہوں جناب ریڈیو زرمبش کی سربراہ حکیم بلوچ کی جس نے میرے آرٹیکل کے متعلق اپنے فیسبک پر خوش آیند الفاظ لکھے، انتہائی شائستگی اور آدب سےمیرا حوصلہ افرائی کرنے کے ساتھ کچھ بہتر الفاظ کا انتخاب کیا تھا، جس نے میرے تحریر پر مثبت تنقید بھی کی تھی لیکن دوسری جانب میری نظروں سے دی بلوچستان پوسٹ پر سفرخان نامی شخص کی تحریرگذری، میں کافی خوش ہوا کہ میرے تحریر کے جواب میں سفر خان نے کچھ لکھا ہے، پڑھنے سے پہلے میں نے سمجھا کہ اس کی تحریر سے ایک اچھی بحث ہو گی اور کچھ رہنمائی حاصل ہوگی لیکن پڑھ کر سمجھ نہیں آرہا تھا انہوں نے کیا لکھا ہے میرے تحریر کی مد میں، کس کو جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں؟

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سفر خان کو مزید پڑھنےاورسمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اِن سے وہ قاصر ہیں، اسلئے میں عرض کرتا ہوں کہ وہ میرے اُس تحریر کو ٹھنڈے دماغ اور دل سے پڑھ لیں میں نے کیا لکھا ہے اور کیا کہہ رہا ہوں، شاید انکو سمجھنے میں مشکل ہے تو کسی اورسے رہنمائی حاصل کریں جو تھوڑا بہت اردوجانتے ہیں۔

سفر خان خیالی دنیا سے نکل کر علم و ادب کو سمجھیں، اسی کی مدد سے دنیا اس وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہے، کس طرح دنیا کے لوگ چاند پھر سفر کر رہے ہیں۔ سفر خان نے میرے لکھی ہوئی تحریر کو نہیں پڑھا، صرف سنا ہوگا۔ میں سمجھتاہوں بقول انکے میرے تحریر میں کچھ کمی ہوں تو لوگوں سے ان غلطیوں کی معافی مانگتاہوں، ان کی دل آزاری ہوئی ہے۔

لیکن سفر خان کو وضاحت دینا ہوگا کہ میں نے ایسی کونسی غلط بات تحریر کی ہے، جس سے سفر خان حواس باختہ ہو چکا ہے؟ اگر میں یہ سفر خان کی طرح کہوں کہ تم بھی کسی اور کے کہنے پر یہ تحریر کرچکے ہو تو میرا ضمیر اس بات کو قبول نہیں کرتا، دماغ جواب دیتا ہے کیونکہ کسی پر الزام لگانا غیر اخلاقی بے علمی کا عکاس ہوتا ہے۔

رہی بات الزام لگانے کی، مہربانی کرکےآداب کےساتھ پھر سے کہتا ہوں سفرخان کویہ وضاحت کرنا ہوگا، کہیں پر کسی بھی ادارے کے سامنے کہ میں کس کے کہنا پر لکھ رہاہوں؟ سفر خان تم جذبات کے ساتھ یہ تحریر لکھ چکےہو، اس لئے اپنے ہوش کھو بیٹھےہو۔

میں بڑے احترام کے ساتھ اپنے تمام اداراوں کا احترام کرتا ہوں، انہی اداروں کو سن کر، پڑھ کر، لکھنے اور تنقید کرنےکا حوصلہ رکھتاہوں۔

لیکن سفر خان اپنے جذباتی تحریر میں جو کچھ کہہ رہا ہے، ان کا جواب دینا ضروری ہے۔ سفر خان کے مطابق میں تنقید کے مطلب کو نہیں سمجھتا ہوں تو آپ اپنے تحریر میں جذبات کے بدلے میں تنقید کی تشریح کرتے، ہمیں رہنمائی حاصل ہوتا لیکن میں آپ سے بہتر تنقید کےمعنی کو جانتا ہوں اور اخلاقیات کوسمجھتاہوں اور آپ سے عرض کرتا ہوں تنقیدکوسمجھنا چاہتا ہوں میں یقین سےکہتاہوں آپ کتاب تونہیں پڑھتےہیں، آپ کی رہنمائی کےلئے آپ کو کہتا ہوں کہ آپ کریم دشتی کے کتاب پڑھنے کی جسارت کریں تو شاید آپ کو سمجھ آئے، تنقید کس کو کہتے ہیں تنقید کس طرح کرتے ہیں۔ تنقید ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے، شاید آپ تنقید کے بارے میں جانتے نہیں کیونکہ آپ کے تحریر سے ظاہر ہو رہا ہے۔

پاکستانی قبضہ، اُس کی آبادکاری ، اُس کے اثرات سے اُسکے بوسیدہ نظام تعلیم سے کس طرح بلوچ کلچراور تہذیب کو خطرہ ہے، اُس سے باخبر رہنا چاہیئے، بلوچ اپنی تہذیب اور بقا کے تحفظ کی خاطر بیس سالوں سے باقاعده لڑ کراپنے سروں کی قربانی دے رہے ہیں، ذرا پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں، آگےجاکر بہتر بن سکتےہیں۔ خالی جذبات انسان کو نقصان دیتے ہیں جب عقل کام کرنا چھوڑ دیں، پھر انسان جذبات سے کام لیتے ہیں عقل سے نہیں۔

آخر میں کہتاہوں اس کی وضاحت اس لئے کررہاہوں اور مطلب صرف یہی ہے کہ سفر خان غلط بیانی کررہاہے، اس کے بعد میں کسی کو جواب نہیں دوں گا، کیونکہ ایک سیاسی طالب علم کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔