اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل الائنس کی جانب سے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ورکنگ کمیٹی کے رکن عبدالوہاب بلوچ ولد سیاھل کی ماورائے عدالت گرفتاری کے خلاف کوئٹہ پریس کلب میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
احتجاجی مظاہرے میں طالب علموں سمیت مختلف شعبہ جات سے منسلک افراد نے بھرپور شرکت کی اور وہاب بلوچ کی گرفتاری کو سیاسی سرگرمیوں پر قدغن قرار دیتے ہوئے شدید نعرے بازی کی اور عبدالوہاب بلوچ سمیت تمام بلوچ طالب علموں کی بازیابی کا بھی مطالبہ کیا۔
اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل الائنس کے رہنماوں نے احتجاج میں شریک طالب علموں اور طلبہ الائنس کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل گھڑی میں آپ طالب علموں اور پروفیسرز اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی احتجاجی مظاہرے میں شرکت ہمارے ارادوں میں پختگی کا باعث ہوگی اور ہم ایک نئے جوش و جذبے اور لگن سے طالب علموں کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہونگے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں بلوچستان کے تعلیمی ادارے آمریت کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں جہاں طالب علم کو نہ تعلیمی سہولتیں میسر ہے اور نہ ہی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے بلکہ قوم کے معماروں کو ٹشو پیپر سمجھ کر ان کی حق تلفی کی جارہی ہیں جس کے منفی نتائج کی وجہ سے سماج میں بے راہ روی اور غیر سنجیدگی جنم لینے کا خدشہ بڑھ رہا ہے جس کی ذمہ دار بلوچستان کے اعلیٰ اداروں کے سربراہان اور ان کے ماتحت افسران ہے۔
رہنماوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ بلوچستان کے طالب علموں کی ماورائے عدالت گرفتاری ایک دہائی سے جاری ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے طالب علم خوف کے ماحول میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ خوفزدگی کے اس گھٹن زدہ ماحول میں مستقبل کے معماروں کے بجائے ڈرے سہمے ہوئے روبورٹ ہی جنم لے سکتے ہیں جو کرپشن اور دیگر ناجائز ذرائع سے قوم و ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنے کا باعث ہوگی۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل الائنس کے رہنماوں نے کہا کہ دس دسمبر کو بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ورکنگ کمیٹی ممبر وہاب سیاھل کو گوادر سے لاپتہ کیا گیا ہے۔ وہاب بلوچ کی گرفتاری کو ایک مہینہ مکمل ہونے کو ہیں لیکن انہیں نہ منظر عام پہ لایا گیا ہے اور نہ ہی اہلخانہ کو انکے بارے کوئی اطلاع دی گئی ہیں بلکہ اس کے برعکس یقین دہانی کے باوجود انہیں بازیاب نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بی ایس اے سی کے سابق مرکزی وائس چئیرمین فیروز بلوچ اور ان کے کزن جمیل بلوچ کو قلات کے مقام سے ماورائے عدالت گرفتار کیا گیا جن کی غیر آئینی گرفتاری کو سات مہینے کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن تاحال ان کے بارے میں نہ ہمیں کوئی اطلاع دی گئی ہیں اور نہ ہی اہلخانہ کو ان کی زندگی بارے کوئی اطلاع دی گئی ہیں۔
مرکزی رہنماوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ طالب علموں کی ماورائے عدالت گرفتاری سے نہ صرف طالب علم بے چینی کی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں بلکہ ان طالب علموں کے سرپرست بھی اپنے بچوں کے مستقبل اور ان کے تحفظ حوالے شش و پنج میں مبتلا ء ہیں، مسلسل طلباء رہنماوں کی جبری گمشدگی سے ایک غیر یقینی صورتحال جنم لے رہا ہے۔
اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل الائنس کے رہنماؤں نے کہا کہ سماج میں سیاسی و شعوری پروگرامز پر پابندی غیر سیاسی رویوں کو جنم دینے کا مؤجب ہوگی جس کے منفی اثرات سماج کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دینگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری جدوجہد کا محور و مرکز نوجوانوں میں سیاسی و شعوری سوچ کو پروان چڑھانا ہے جہاں طالب علم غیر ضروری اعمال کے بجائے قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ہو لیکن افسوس کا مقام ہے کہ سیاسی و شعوری طالب علموں کو لاپتہ کرکے قومی مستقبل کو داؤ پہ لگانے کی کوششوں کو پروان چڑھایا جارہا ہے جس کی مذمت کریں گے اور ایسے منفی اعمال کے خلاف ہر فورم پہ آواز اٹھاتے رہینگے۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ عبدالوہاب بلوچ، فیروز بلوچ، جمیل بلوچ اور دیگر طالب علموں کو سیاسی سرگرمیوں میں کردار ادا کرنے پر پابند سلاسل کرنا ملکی آئین و قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ وہاب بلوچ کی جبری گمشدگی نہ صرف طالب علم کا لاپتہ ہونا ہے بلکہ قومی مستقبل کا لاپتہ ہونا ہے جس کے لئے تمام طلبہ تنظیمیں متحد ہو کر ایک پروگرام منظم کریں تاکہ طالب علموں کا مستقبل محفوظ ہواور ان کو لاحق خطرات کا قلع قمع ہو۔
احتجاجی مظاہرے کے آخر میں طالب علم رہنماؤں نے وفاقی حکومت، بلوچستان حکومت اور دیگر اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہوئے کہا ماورائے عدالت گرفتار ہونے والے تمام لاپتہ سیاسی اسیران کو بازیاب کیا جائے اور مستقبل قریب میں ایسے واقعات کے انسداد کے لئے واضح پالیسیوں کو حتمی شکل دی جائے۔