کوئٹہ سے منتخب حکومتی اور اپوزیشن اراکین صوبائی اسمبلی نے سوئی سدرن گیس حکام کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اتوار تک گیس پریشر بحال نہ کیا گیا تو دفتر کے سامنے غیر معینہ مدت تک دھرنا دیں گے، گیس کی فراہمی ہمارا آئینی حق ہے نہ دیا گیا تو زبردستی لیں گے، گیس پریشر میں کمی سے اموات ہورہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار قائد حزب اختلاف اور جمعیت علماء اسلام کے پارلیمانی لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ، صوبائی مشیر کھیل و ثقافت عبدالخالق ہزارہ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین و بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی اختر حسین لانگو، پشتونخواملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرے، پاکستان تحریک انصاف کے مبین خان خلجی نے ڈپٹی کمشنر آفس کوئٹہ میں سوئی سدرن گیس کمپنی اور کیسکو حکام کے ساتھ اجلاس کے بعد کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی احمد نوا زبلوچ اور ایچ ڈی پی کے قادر نائل بھی موجود تھے۔
ملک سکندرایڈووکیٹ نے کہا کہ بلوچستان میں گیس و بجلی کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے، گذشتہ 2 ماہ کے دوران کوئٹہ کے لوگ انتہائی کرب اور تکلیف سے گزر رہے ہیں اس دوران کوئٹہ سے منتخب اراکین اسمبلی کا اکثر وقت ان مسائل کے حل میں گزرتا ہے۔ جہاں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے وہی ٹرانسفر خراب ہونے سے 20 سے 25 دنوں تک لوگ متعلقہ دفاتر کے چکر کاٹ کر منت اور سماجت کرنے پر مجبور ہیں اور ان دفاتر کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ المیہ ہے کہ انتہائی سخت سردی میں کوئٹہ کی 22 لاکھ آبادی گیس کی سہولت سے محروم ہیں جو آئین میں دیئے گئے ان کے حقوق سے انحراف کرنے کے مترادف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کوئٹہ میں گیس پریشر میں کمی اور بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے متعلق مسائل کے حل کے لئے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کے دفتر میں پانچ گھنٹوں پر محیط اجلاس ہوا جس میں ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ محکموں کے حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں کوئٹہ سے منتخب ہونے والے تمام اراکین اسمبلی نے شرکت کی اور مسائل کے دیرپا حل کے لئے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں تمام اراکین اسمبلی نے موقف اختیار کیا کہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور گیس پریشر میں کمی بلوچستان بھر باالخصوص کوئٹہ کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرانسفارمر خراب ہونے سے اکثر علاقوں میں پانی کی قلت پیدا ہوتی ہے اور خراب ٹرانسفارمرز کی مرمت میں 20 سے 25 دن لگ جاتے ہیں جس کے دوران متعلقہ علاقے کے لوگوں کو دشواریوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ لوگ کیسکو کے دفاتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ کیسکو کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرکے خراب ٹرانسفارمز کی درستگی کو یقینی بنائے۔ اجلاس میں اراکین اسمبلی نے کوئٹہ میں 20 نئے فیڈرز کے قیام کا بھی مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں طے پایا کہ کیسکو حکام مزید نئے فیڈرز کے قیام سمیت حالیہ برف باری اور بارشوں سے خراب ہونے والے ٹرانسفارمرز کو ایک ہفتے کے دوران درست کرکے دوبارہ متعلقہ علاقوں میں تنصیب کو یقینی بنائیں گے اور مستقبل میں خراب ٹرانسفارمرز کی مرمت کو ایک دن کے اندر یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں طے پایا کہ کیسکو حکام لوڈشیڈنگ کے اوقات سے متعلق کوئٹہ سے منتخب اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لیں گے اور لوڈشیڈنگ کے اوقات کار کا تعین کرکے اراکین اسمبلی کو کاپی فراہم کی جائے گی تاکہ لوڈشیڈنگ کے اوقات کار سے متعلق عوام کو دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں طے پایا کہ کیسکو حکام آئندہ ماہ ہونے والے اجلاس میں اپنی کارکردگی سے متعلق رپورٹ پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اراکین اسمبلی نے سوئی گیس کے حکام کو تجویز دی تھی کہ بلوچستان میں سوئی گیس کمپنی فی گھر سالانہ 25 ہزار روپے فکس نرخ مقرر کریں اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی سے قرار داد بھی منظور کی گئی ہے تاہم اسلام آباد میں موجود سوئی گیس حکام نے ہماری اس تجویز پر عمل درآمد نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ گیس پریشر میں کمی سے کوئٹہ میں لوگوں کی اموات واقع ہوچکی ہیں۔ کئی لوگ سردی سے بیمار پڑ گئے ہیں۔اگر کوئٹہ کے لوگوں کو سردی سے بچنے کے لئے گیس فراہم نہیں کی جاتی ہے پھر کوئٹہ شہر کے وسط میں قائم سوئی گیس کے دفتر کی موجودگی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں سوئی گیس حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ 19 جنوری تک شارٹ فال کو دور کرکے تمام حلقوں میں پریشر کو درست کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم واضح کرتے ہیں کہ سوئی گیس حکا نے آئندہ 48 گھنٹوں کے اندر مسئلے کا حل کو یقینی نہ بنایا تو کوئٹہ سے منتخب تمام اراکین اسمبلی عوام کو ساتھ لے کر سوئی گیس دفتر کے سامنے احتجاج کریں گے اور ہمارا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسئلہ حل نہیں ہوجاتا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ و مشیر کھیل عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ گذشتہ ماہ وفاقی وزیر عمر ایوب اور تحریک انصاف کے رہنماء جہانگیر ترین کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر تین دن تک کوئٹہ میں گیس پریشر بحال رہا اس دوران گیس پریشر میں کمی سے متعلق سوئی گیس حکام کی کوئی عذر سامنے نہیں آئی۔ دورے کے موقع پر دونوں رہنماؤں نے وزیراعلیٰ بلوچستان اور اراکین اسمبلی سے ملاقات کی جس پر میں نے انہیں تجویز دی کہ وہ کم از کم ہر مہینے کوئٹہ کا دورہ کریں تاکہ گیس پریشر سے متعلق عوام درپیش مسائل میں کسی حد تک کمی ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ عجیب صورتحال ہے کہ رات 11 بجے اچانک گیس پریشر بحال ہوجاتی ہے اور صبح 7 بجے پھر آہستہ آہستہ پریشر کم ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں سوئی گیس حکام کی جانب سے گیس پریشر میں کمی سے متعلق پیش کئے گئے تمام وضاحتیں بے سود رہی ان کے پاس پریشر میں کمی سے متعلق کوئی جوائز نہیں ہے۔ بجلی کی شارٹ فال کو درست کرنے اور بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف کاروائی کیسکو حکام کی ذمہ داری ہے نہ کہ عوام کی۔ کیسکو کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ 3 سے 4 بجلی چوری کرنے والوں کی سزا پورے حلقے کو دیں، جو چوری کررہا ہے ان کے خلاف کاروائی کی جائے کوئی بھی عوامی نمائندہ اس کی پشت پناہی نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ 2030 میں سی پیک منصوبے سے اقتصادی گولز حاصل کیئے جائیں گے مگر صوبائی دارالحکومت ہونے کے باوجود جس شہر میں گیس اور بجلی جیسے بنیادی سہولیات تک میسر نہ ہو وہاں کون آئے گا۔ تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر تمام اراکین اسمبلی اکھٹے ہوئے ہیں جس کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ عوام کی تکالیف پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اختر حسین لانگو کا کہنا تھا کہ آج ہم نے ایک مثال قائم کی ہے کہ تمام تر سیاسی، نظریاتی اختلافات بالائے طاق رکھ کر اکھٹے ہوکر عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ ہم سب کا مشترکہ گھر ہے جس کی بہتری کے لئے ہم سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ سمجھ نہیں آرہا کہ ملک کے دیگر حصوں کو گیس کی فراہمی کے لئے بلوچستان کا کوٹہ کم کیا گیا ہے۔ آئین میں واضح ہے کہ جس صوبے سے معدنیات اور وسائل نکل رہے ہیں سب سے پہلے وہاں کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرکے پھر دیگر علاقوں فراہم کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں لوگ حسب ضرورت گیس استعمال کرتے ہیں جبکہ بلوچستان کے لوگ زندہ رہنے کے لئے اس کا استعمال کررہے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت میں جب گیس پریشر کی یہ صورتحال ہے تو قلات، مستونگ، پشین اور زیارت کی حالت کیا ہوگی۔ سوئی گیس بلوچستان کی ملکیت ہے اس سے صوبے کی ضروریات کو پوری کی جائے۔ اگر گیس بحال نہ کی گئی تو ہم لوگوں کو ساتھ لے کر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور اس وقت تک کوئٹہ میں موجود سوئی گیس دفتر کے سامنے بیٹھیں گے جب تک مسئلہ حل نہیں ہوتا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخو اہ ملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے کہا کہ اس وقت ملک میں ساڑھے 3 ہزار ملین کیوبک گیس پیدا ہورہی ہے جس میں سے بلوچستان کو صرف 190 ملین کیوبک گیس دیا جارہا ہے جس سے اکثر علاقوں میں گیس پریشر میں کمی کا مسئلہ درپیش ہے اور لوگ انتہائی کرب سے گزر رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں قائد حزب اختلاف بلوچستان اسمبلی ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ اگر متعلقہ ادارے اپنی فرائض کی ادائیگی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو مذکورہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ کوئٹہ سے منتخب ہونے والے تمام اراکین صوبائی اسمبلی مسائل کے فوری حل کے لئے ہونے والے جدوجہد میں متحد ہیں۔ ہم ایک ساتھ اپنے حقوق حاصل کریں گے اگر ہمارے حقوق نہیں دیئے جاتے تو انہیں چھیننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔