بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ تشوشناک صورتحال اختیار کرچکا ہے، جہاں گذشتہ دنوں کئی لاپتہ افراد بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں وہی مختلف علاقوں سے جبری گمشدگیوں کے واقعات بھی رپورٹ ہورہے ہیں۔
ٹی بی پی نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ضلع پنجگور سے گذشتہ روز بازیاب ہونے والے نوجوان کو دوبارہ جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا ہے۔
پنجگور کے علاقے پروم سے تعلق رکھنے والا نوجوان عبدالمجید ولد عبدالرشید 17 مارچ 2017 سے جبری طور پر لاپتہ ہونے کے بعد گذشتہ روز بازیاب ہوگیا لیکن عبدالمجید کے لواحقین کی خوشی اس وقت ماند پڑگئی جب پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے عبدالمجید کو دوبارہ لاپتہ کردیا۔
وی بی ایم پی کے مطابق تنظیم کو شکایت موصول ہوئی ہے کہ عبدالمجید کو بازیابی کے بعد دوبارہ ایف سی کیمپ پنجگور بلایا گیا جس پر اس کے لواحقین انہیں کل شام ایف سی کیمپ پنجگور لے گئے جہاں حکومتی اداروں کے اہلکاروں نے عبدالمجید کو یہ کہہ کر روک لیا کہ کچھ دستاویزات پر دستخط کرنے کے بعد انہیں چھوڑ دینگے لیکن ابھی تک عبدالمجید اداروں کے حراست میں ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عبدالمجید کے رہائی سے تین سال کے بعد ان کے لواحقین کو ایک خوشی ملی تھی لیکن دستاویزات پر دستخط کے نام پر عبدالمجید کو دوبارہ لاپتہ کرکے ان کے لواحقین کی خوشی چھین لی گئی۔
نصراللہ بلوچ نے اسے ایک غیر اخلاقی اور غیر آئینی عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ عبدالمجید کے دوبارہ گمشدگی سے اس کے لواحقین مزید تشویش میں مبتلا ہوچکے ہیں، میں اس عمل کی مذمت کی کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اگر دستاویزات پر دستخط کرنا تھا تو اداروں کی یہ ذمہ داری تھی کہ عبدالمجید کو واپس ان کے لواحقین کے ہمراہ جانے دیا جاتا لیکن اس طرح اسے دوبارہ لاپتہ کرنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے لہٰذا میں اپیل کرتا ہوں کہ عبدالمجید کو رہا کرکے ان کے لواحقین کو ان کی خوشیاں واپس دی جائے۔
واضح رہے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز و دیگر سیاسی جماعتوں کے مطابق بلوچستان جبری طور پر لاپتہ کیئے جانے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ سینکڑوں لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں بھی مل چکی ہے۔
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن (بی ایچ آر او) کے چیئرپرسن بی بی گل نے ٹی بی پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جبری طور پر لاپتہ افراد بازیاب ہورہے ہیں لیکن دوسری جانب سے لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، گذشتہ دنوں ہرنائی اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے بھی لوگوں کو لاپتہ کیا جاچکا ہے۔
بی بی گل نے کہا کہ عبدالمجید کو دوبارہ لاپتہ کرکے کہا گیا ہے کہ انہیں تربت لے جاکر رہا کیا جائے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ جماعتوں اور افراد کی جانب سے کریڈٹ لینے کا کھیل شروع کیا جاچکا ہے۔ اگر یہ افراد کسی معاہدے کے تحت رہا ہورہے ہیں۔
بی ایچ او رہنما کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ سال وزیر اعلیٰ بلوچستان اور وزیر داخلہ کیساتھ ملاقات میں ہم نے یہ بات کی تھی کہ تمام لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے پھر ہم اپنا احتجاج ختم کرینگے، ان افراد میں ایک ایک دہائی سے زائد عرصے سے لاپتہ افراد بھی شامل ہے جبکہ وزیر داخلہ کی جانب سے ہمیں ان افراد کے تفصیلات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی کہ جو ان کے پاس نہیں ہے یعنی جو افراد دوران تشدد یا کسی بیماری وغیرہ کے وجہ جانبحق ہوئے ہیں لیکن حکومتی ارکان کی جانب سے اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں دیکھنے میں آسکی۔
جبری طور پر لاپتہ افراد میں دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے سمیت بڑی تعداد سیاسی کارکنان کی بتائی جاتی ہے، بی ایس او آزاد، بی این ایم اور دیگر قوم پرست جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کے مسخ شدہ لاشیں بھی ماضی میں مل چکی ہے۔
بی بی گل بلوچ نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ماما قدیر بلوچ کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آخری لاپتہ شخص کے رہائی تک ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔