پسنی: مقامی افراد کی اراضیات سرکاری تحویل میں، زمینداروں کے مالکانہ حقوق ختم

775

پسنی میں حکومت نے مقامی لوگوں کی 36 ہزار ایکڑ اراضی سرکاری تحویل میں لے لیا۔ ڈپٹی کمشنر گوادر کے نام منتقل کی گئی بہت سے اراضیات آئل ریفائنری میں آرہی ہیں

بلوچستان حکومت نے تحصیل پسنی کے 36 ہزار سے زائد ایکڑ اراضی ڈپٹی کمشنرگوادر کے نام باقاعدہ منتقل کردیئے، مختلف علاقوں کے 19 موضع جات پر زمینداروں کے مالکانہ حقوق ختم کر دیئے گئے، ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ بلوچستان کی انکوائری رپورٹ کے بعد اقدامات اٹھایا گیا۔

ذرائع کے مطابق ڈپٹی کمشنر گوادر کے نام منتقل کی جانے والی زیادہ تر اراضیات آئل ریفائنری میں آرہی ہیں، مقامی زمینداروں نے فیصلے کو چیلنج کردیا۔

واضح رہے کہ پسنی کے اراضیات کی پیمائش کا سلسلہ سال 2004 سے لیکر 2010 تک جاری رہا لیکن اس دوران کسی بھی حکومتی ادارے نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔

سال 2011 میں تحصیل پسنی کی آخری تصدیق شروع ہوئی، بندوبست اور آخری تصدیق کے دوران زمینداروں کے کچھ قطعات اراضیات ان کے ناموں پر درج ہوئے جبکہ زیادہ تر قطعات کو غیر متعلقہ افراد و غیر مقامی افراد کے ناموں پر درج کیا گیا تھا جس پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت نے 2014 میں تحصیل پسنی کے مذکورہ موضع جات کی آخری تصدیق منسوخ کرادی اور چھان بین کے بعد دوبارہ آخری تصدیق سال 2015 کو کرادیئے اس دوران زمینداروں کی کہیں قطعات اراضیات کو سرکاری کھاتہ میں درج کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ بلوچستان ظفر مسعود کا ایک یکطرفہ انکوائری نمبری.429 No GWR/Inp/896/2018محررہ 24 نومبر 2018 رپورٹ منظر عام پر آیا جس کو بنیاد بنا کر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو بلوچستان شعیب گولہ نے نوٹیفکیشن No. 70/ Settlement /2018 مورخہ 7.1.2019 کو تحصیل پسنی کے 19 موضحات میں زمینداروں کے 36،258 ایکڑ موروثی و ملکیت ڈگری شدہ اراضیات کو سرکاری کرکے انتقالات کے ذریعے حکومت بلوچستان /ڈپٹی کمشنر گوادر کے نام ٹرانسفر کیا ہے جبکہ اس حوالے سے زمینداروں کو کسی قسم کا معاوضہ نہیں دیا گیا۔

دوسری جانب زمینداروں نے جام حکومت کے مذکورہ فیصلے کو ظلم قرار یکر اس فیصلے کو چیلنج کردیا ہے زمینداروں نے بتایا کہ ان کی جدی پشتی اراضیات کو ڈپٹی کمشنر گوادر کے نام منتقل کردینا زیادتی ہے اور انصاف کے تقاضوں کے بر خلاف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان اراضیات سے سرکار یا حکومت بلوچستان کو کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ بلوچستان ظفر مسعود کا یکطرفہ انکوائری نمبری 429 /INP/896/2018 GWR محررہ 24 نومبر 2018 رپورٹ میں تحصیل پسنی ضلع گوادر کے 19 موضع جات بشمول چکین، شتنگی، شمال بندن، چربندر، گزدان بل، کنربل، ماکولہ شرقی، ماکولہ غربی، گھٹی، گرانی، کپر، کپر شرقی، کپر غربی، کلمت، چھنڈی کلمت، اسپیاک، ڈوسی، رومبڑو، شادی کور شمالی، موضع ذرین میں سے زمینداروں کے 36،258 ایکڑ اراضیات کو بغیر کسی ثبوت کے سرکاری کھاتہ میں درج کرنے کی سفارش کی گئی تھی جو غیر قانونی و غیر شرعی ہے۔

اس فیصلے سے علاقائی زمینداران کو ان کی موروثی اراضیات سے محروم کرکے ان کو نان شبینہ کا محتاج بنا دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پٹواری سسٹم اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ غریب زمینداران کے موروثی و ملکیتی اراضیات کو بزور قلم اور ان کی اجازت کے بغیر سرکاری کھاتہ میں ٹرانسفر کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس اگر ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ کے انکوائری رپورٹ کو ملاحظہ کریں اس سے واضع ہے کہ سٹلمنٹ اہلکاروں کی نااہلیوں اور کوتاہیوں کی سزا زمینداروں کو قرار دی گئی ہے کیونکہ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ اپنے انکوائری رپورٹ میں کہہ رہے ہیں کہ ریکارڈ کے ساتھ پٹواریوں /قانون گو و دیگر نے فیلڈ بک، سرورق بک، میزان، صفحہ وار، فردرنگ سازی وغیرہ منسلک نہیں کی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر سٹلمنٹ اہلکاروں نے اس طرح کی کوتاہیاں کی ہیں تو اس کے ذمہ دار زمیندار نہیں ہوسکتے لیکن اس کے برعکس ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت تحصیل پسنی کے زمینداران کو ان کی اراضیات سے محروم کیا گیا ہے۔

زمینداروں نے بتایا کہ محکمہ ریونیو کے افسران سی پیک کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے افسران زمینداران کو بلیک میل کرکے اپنا حصہ بٹورنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے سی پیک منصوبہ مزید تعطل کا شکار ہوکر رہ جائے گی۔ زمینداروں نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے وزیر اعلی بلوچستان کو درخواست دی جس پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے درخواست SMBR کو مارک کیا تھا لیکن SMBR کی جانب سے ابھی تک کوئی مثبت کاروائی نہیں ہو سکی ہے۔

زمینداروں نے مزید بتایا کہ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ کے انکوائری رپورٹ کا ملاحظہ کریں تو انکوائری رپورٹ میں الگ اراضیات کی انکوائری کی گئی ہے اور منسوخ دوسرے اراضیات کو کیا گیا ہے۔ غیر متعلقہ اشخاص اور غیر مقامی افراد کے ناموں پر ابھی بھی اراضیات موجودہ ہیں جبکہ علاقے کے زمینداروں اور اصل مالکان کو ان کے اراضیات سے بلا جواز محروم کیا گیا جو ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ کی بدنیتی اور ساز باز کو ظاہر کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ بلوچستان پسنی کے علاقائی زمینداروں کو بلیک میل کرنے اور خاموش کرانے کے لئے ان کی مزید اراضیات اپنے من پسند افراد کے ناموں پر درج کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

دریں اثنا دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر گوادر کے نام منتقل کی گئی بہت سے اراضیات آئل ریفائنری میں آرہی ہیں لیکن زمینداروں کو اس سلسلے میں ابھی تک کسی بھی قسم کا معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔