بلوچ رہنما نواب مہران مری نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پاکستانی فوج اپنی عقوبت خانوں میں قید کئے ہزاروں بلوچوں میں سے چند کورہا کرکے اپنے حواریوں کے زریعے یہ تاثر دینے کی کو شش کررہی ہے کہ انہیں بلوچ قوم سے ہمدردی ہے، لیکن ہم اس سفاک فوج کی ہمدری اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشوں، معصوم بچوں اور بے بس ماوں کی آہوں اور سسکیوں کی صورت میں اچھی طرح دیکھ چکے ہیں ،جن افراد کو رہا کیا جارہا ہے انہیں ٹارچر سیلوں میں ذہنی اور جسمانی تشدد کے ایسے مراحل سے گزرنا پڑا کہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت ایسی ہے کہ وہ صرف زندہ لاش کی مانند ہیں اور ان کی زندگیاں اب پہلے جیسی نہیں رہیں
چند افراد کو رہا کرکے اس سے دگنا کو اغوا کیا جاتا ہے، سینکڑوں نوجوان بلوچ طلبا ، اساتذہ ، وکلاء ،صحافی ، سیاسی رہنماوں و کارکنوں اور دیگر بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکیں گئیں، ہزاروں اب بھی فوج اور ان کے سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ سکواڈ کے خفیہ عقوبت خانوں میں ازیتیں سہہ رہی ہیں، لہذا بلوچ قوم پاکستانی دہشت گرد فوج اور ان کے کاسہ لیسوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔
بلوچ رہنماء مہران مری نے کہا کہ جس طرح چین مسلمانوں کو زبردستی عقوبت خانوں اور کیمپوں میں رکھ کر ان کی برین واش کرکے انہیں زبردستی چینی بنارہا ہے اسی طرح پنجابی فوج نے پورے بلوچستان بالخصوص بلوچ آبادی کو چینی طرز کے ایک بڑے کیمپ میں تبدیل کردیا ہے ، جہاں انکے نقل و حرکت پر نظر رکھی جارہی ہے ،جو سیاسی بیداری و شعور رکھتے ہیں ،اپنے سرزمین کے ساحل و وسائل پر اپنا اختیار اور پاکستانی قبضے کو ناجائز سمجھتے ہیں جن کو یا تو شہید کیا جاتا ہے یا عقوبت خانوں میں سالہا سال رکھ کر انہیں اذیتیں دے کر نہ صرف انہیں بلکہ متاثرہ خاندان کے دیگر افراد کو زبردستی پنجابی مسلمان اور پاکستانی بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف فوج کے کاسہ لیس اور ڈیتھ سکواڈ کے کارندے اسلحہ لیے بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑیوں میں دندناتے پھرتے ہیں
بلوچ رہنماء نے کہا کہ ایک طرف تو بلوچ قوم کی سیاسی، سماجی ، معاشی اور ثقافی نسل کشی ہورہی ہے تو دوسری طرف یہ نام نہاد بلوچ رہنما اور پنجابی کاسہ لیس اپنے آقاوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی مقابلے میں لگے ہوئے ہیں کوئی پاکستانی جھنڈے کا سبز رنگ کا شلوار قمیض پہن کر فخر محسوس کرتا ہے تو کوئی اپنا گھر کا پتہ اور نام پاکستان ہاوس رکھ کر پھولے نہیں سماتا ۔
مہران مری نے کہا کہ تاریخ کو دیکھا جائے تو دنیا میں بڑی بڑی اور ایک سے زائد براعظموں پر پھیلے سلطنتیں محکوم اقوام میں شعور و بیداری پیدا ہونے کی بدولت ریزہ ریزہ ہوگئیں جبکہ پاکستان ایک غیر فطری ریاست ہے اسے بوجہ ضرورت وجود میں لایا گیا اور اب پاکستان کے مقبوضہ علاقوں کے محکوم اقوام میں شعور آذادی پیدا ہورہی ہے، بلوچوں کے علاوہ دوسرے محکوم اقوام مثلا پختون قوم بالخصوص نوجوانوں میں احساس و شعور پیدا ہورہا ہے کہ ان کی معاشی و ثقافتی نسل کشی ہورہی ہے ایک پورے قوم اور ان کے ثقافت کو جامع منصوبہ بندی کے تحت دنیا میں دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیاجس طرح پختون اور دیگر محکوم اقوام میں سیاسی شعور پیدا ہورہا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ پاکستان سے الحاق ایک غیر فطری عمل ہے، اس سے پاکستان کے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس غیر فطری ریاست کے فنا ہونے میں کوئی دو رائے نہیں۔
بلوچ رہنماء نے کہا بلوچ چونکہ ایک قوم ہے اس کی اپنی ایک تاریخ رہی ہے لہذا بلوچ قوم کاپاکستان کی غلامی سے آزاد ہونا ایک فطری اور یقینی بات ہے ۔
بلوچ رہنماء نے مزید کہا بلوچ قوم کو آزادی کی نعمت اور قدر کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہئے کہ چند سال پہلے جب بنگالی پاکستان کے زیر تسلط تھے تو پنجابی بنگالیوں کو حقیر سمجھتے تھےاور پاکستانی فوج نے لاکھوں بنگالیوں کا قتل عام کیا اور آج یہی بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم جب پاکستان کھیلنے آئی تو گیارہ بنگالیوں کی حفاظت اور خدمت گزاری کے لیے ہزاروں پاکستانی فوجی اور دیگر سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا اور وہ پنجاب کے جس شہر سے گزریں تو پورا ٹریفک بند کیا جاتا ہے۔