نوجوانوں! یہ انقلاب ہے – غنی بلوچ

840

نوجوانوں ! یہ انقلاب ہے

غنی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جنگ کی طرح انقلاب بھی نوجوانوں کے کاندھوں پر سوار ہو کر آتا ہے، جب اسے بھوک لگتی ہے تو چڑھتی جوانیوں کو نگل جاتا ہے یہاں بھی یہی ہو رہا ہے ۔ ان بیس سالوں میں اسی انقلاب اور جنگ کو لے کر سڑکوں ، میدانوں ، ویرانوں سے لے کر چٹیل پہاڑوں نے بھی نہ جانے کتنے نوجوان کی لاشوں کو گرتے اور سڑتے دیکھا ہوگا اور دل ہی دل میں یہ پہاڑ یہی کہے ہوں گے ۔

شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
(ساغر صدیقی)

نہ جانے کیسے کیسے خوبرو نوجوان ہم سے چھن گئے، ذاکر، زاھد ، فیروز ، وہاب سے لے کر ہر اس نوجوان کو منظر سے غائب کیا گیا۔ غائب کرنے کیلئے شرط یہ ہے کہ بلوچ ہو ، نوجوان ہو ، عقل سلیم کا مالک ہو، اگر وہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں زیر تربیت ہو پھر تو سب سے زیادہ اور ضروری ہے کہ اسی کو غائب کیا جائے ۔

عوام خاص کر نوجوانوں کی آواز کو دبانا ایک فن ہے، حکومت اور ریاست وقت ہمیشہ سے اس فن کی قدردان اور سرپرست رہے ہیں، ہمیشہ یہی تاک میں لگے رہتے ہیں کہ جو بھی آواز نکالی تو اس کو ہمیشہ کیلئے خاموش کیسے کرنا ہے، جس طرح ریاست نے بلوچ نوجوانوں کی آواز کو خاموش کرنے یا دفن کرنے کیلئے لاپتہ اور مسخ شدہ لاشوں کا طریقہ استوار کیا ہے۔

“جتنا دباؤ گے اتنا ہی ابھرے گا “اس کے مصداق آواز دبائے جا رہے ہیں اور دوسری جانب وہی آوازیں آگ کا شعلہ بن کر روز بروز ریاست کی بوسیدہ اور نیم خوردہ عمارتوں کو جلا رہے ہیں، وہی آواز چیخ میں تبدیل ہوکر ریاستی دیواروں میں دراڈ پیداکرتی چلی آ رہی ہیں ۔

انقلاب فرانس کے بعد پیرورگنی آد ( Pierre Vergniaud) نے کہا ) The Revolution is like saturn . it is devouring its own children ) یعنی انقلاب اپنی اولاد کو ہڑپ کر جاتا ہے ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ انقلاب کبھی بھی بانجھ پن کا شکار نہیں ہوتا دن بدن بڑی تیزی کے ساتھ اپنے لیے اور بھی اولاد پیدا کرتا آ رہا ہے۔ جو کہ اس انقلاب کو تھمنے نہ دے، کمزور ہونے نہ دے۔ ہاں ایک بات یاد رکھنا چاہیے کہ انقلاب میں افراد کی حفاظت کا کوئی تصور نہیں ہوتا، سب غیر محفوظ ہوتے ہیں، انقلاب کے رہنماء دوسروں سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔

اسی لیے عطا شاد نے کہا تھا۔
“ بڑا کٹھن ہے راستہ جو آ سکو تو ساتھ دو “

اسی انقلاب کو لے کر بلوچستان کا نوجوان بہت کچھ دیکھتا ہے، سنتاہے، محسوس کرتا ہے اور پھر حالات کے بہاؤ میں کھو کر سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ ان دوستوں کو ، رشتہ داروں کو ، جن کے ساتھ وقت اور حالات کے بہاؤ میں بہہ جانے کے بجائے ان وقت اور حالات کی مخالف سمت کا انتخاب کیا تھا، ایک دن ایسا آتا ہے کہ ان کو مسخ شدہ لاش کی صورت میں صرف تصویروں میں دیکھتا ہے ۔ اُن لوگوں کو ، اپنے دوستوں کو جن کے ساتھ وقت گذارا ، خواب دیکھے ، کئی خواہش اور آرزوؤں کو لے کر انہوں نے انقلاب کے لبادے اوڑھ کر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی قسم بھی کھائے تھے لیکن ایک دن ایسا آیا کہ انہیں لاپتہ ہوتے دیکھتا ہے۔ پھر ان کے ماؤں، بہنوں کے احتجاجی مظاہرے میں آہوں اور سسکیوں کی آواز بھی سنتا ہے۔ کرپشن ،لوٹ کھوسٹ، قتل و غارت ،ساحل و وسائل کا رونا، پھر یہی ساحل و وسائل اپنوں کے ہاتھوں سے نیلام ہونا ، روز ہی بہت کچھ اس کے دل میں آتا اور نکل جاتا۔ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے؟ آگے کیا ہوگا ۔ وہ ہمیشہ اسی ہاں اور نہیں کے بیچ اٹکا رہتا ہے۔
اسی کو لے کر غالب نے کہا تھا ۔
“ ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے “

یاد رکھنا یہ انقلاب ہے، یہاں ناقابل برداشت صدمہ بھی خاموشی کے ساتھ برداشت کر لینا پڑتا ہے ۔ زمین پھٹ پڑے ، آسمان گر جائے ، تارے ٹوٹ جائے اپنے معمول کے کاموں اور فرائض میں کوئی فرق آنے نہیں دینا چاہیے ۔ ہمراہ مارے جائیں ، دوست لاپتہ پہ لاپتہ ہوجائیں لیکن پاؤں میں لغزش نہیں آنی چاہیے ۔ سر زمین کی جانب سے فرزند خوری بھی ان نوجوانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے اور نہ ہی آپسی اختلافات اور رنجشیں ۔

ان تمام چیزوں کو لے کر اور خاص کر آپسی اختلافات کے باوجود انقلاب کی گرفت ڈھیلی نہیں ہونی چاہیے ۔ اس کی مقبولیت اور مضبوطی کا گراف ہر روز بلندی کی جانب بڑھتا چلا جائے، اس سے بڑھ کر اپنوں کے لیے خوشی اور دشمنوں کیلئے پریشانی اور حیرت کی اور کیا بات ہو سکتی ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔