مشرقی بلوچستان اور قومی تحریک – ماہ گنج

877

مشرقی بلوچستان اور قومی تحریک

تحریر: ماہ گنج

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دو دہائیوں سے جاری منظم، شدید، اور شعوری بنیادوں پر استوار بلوچ قومی جنگ نے پورے بلوچستان کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں ہر گلی کوچے تک بلوچ قوم کے حقیقی وارثوں کا پیغام پہنچ چکا ہے۔ بلوچ فرزند ہر جگہ سے علاقائی، لسانی، قبائلی اور مذہبی بنیادوں سے آگے نکل کر تحریک میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جو کہ کہیں کم اور کہیں کثرت سے دکھائی دیتی ہے۔ اسی دوران بلوچ قوم نے اس جنگ کو ایک قومی جنگ کے طور پر دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا جسے بیشتر لوگ پہلے قبائلی یا علاقائی جنگ سمجھ رہے تھے۔

یہ ہماری بدقستی ہے کہ قومی جنگ اپنے پروں کو مشرقی بلوچستان(ڈیرہ غازی خان،راجن پور) تک اس حساب سے نہ کھول سکا جس حساب سے ان علاقوں کو جنگ اور سوچ کو اپنے گھیرے میں لینے کی ضرورت تھی اور یقیناً ہے۔ میرے نظر میں جو بڑے مسائل مشرقی بلوچستان(جو کہ موجودہ پنجاب میں گردانا جاتا ہے) میں قومی جنگ کے سامنے وہ کچھ درج ذیل ہیں۔

● مادری زبان بلوچی کا کافی حد تک مٹ جانا اور اسکی جگہ سرائیکی زبان کا عام ہونا۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں بلوچی زبان بالکل نہیں بولی جاتی۔ وہاں بلوچی بولی بھی کافی حد تک بولی جاتی ہے۔ سرائیکی ہم بلوچوں کی زبان ہے یہ ہر شعور یافتہ بلوچ مانتا ہے مگر یہ زبان مسئلہ کچھ اس طرح سے بن رہا ہے کہ قوم کے اندر ایک دراڑ، پردہ یا پھر ایک روڑہ ہے۔ سرائیکی بولنے والے بلوچ کو اب میرے خیال میں یہ باور کرانا کافی مشکل ہوگا کہ وہ بلوچ ہیں، مگر وہ جہدکاروں یا قوم دوست ساتھیوں کی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے آپ کو بلوچ نہیں کہتا اس میں مکمل قصور اس بھائی کا نہیں جو سرائیکی بولتا ہے بلکہ اس پڑھے لکھے طبقے کا قصور ہے جو اپنے بھائیوں کو یہ باور کرانے میں ناکام ہیں کہ وہ بلوچ ہیں۔

ریاست نے ہمیشہ غلام کو تقسیم کرنے کی کوشش کی اور اسے کوئی چنگاری نظر آتی ہے تو وہ پیڈسٹل فین کا کام شروع کردیتی ہے اور ساتھ ایل پی جی گیس کے کچھ بھرے سلنڈرز تنخواہ پر رکھ ان کے منہ کھول کر آگ کو خوب بھڑکاتی ہے۔ یہ فن ریاست نے مشرقی بلوچستان میں خوب استعمال کیا اور ایک تنخواہ خور طبقے کو تنخواہ دے کر کہا کہ آپ “سرائیکستان “کے نعرے لگاؤ اور انھوں نے کھوکلے نعرے لگائے۔ اس چیز میں کوئی جھجھک کی بات نہیں کہ جو سیاسی خلاء مشرقی بلوچستان میں موجود ہے بجائے اس کے کہ اُس سیاسی خلاء کو بابا خیربخش کے نظریئے سے پُر کیا جاۓ وہ سیاسی خلاء ریاست اپنے ایل پی جی گیس کے سلینڈروں سے بھر رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ سرائیکی( جو واقعی سرائیکی ہیں بلوچ نہیں جیسے ملک،بھٹی،مہاجر وغیرہ) سرائیکستان نہ بنائیں لیکن بلوچستان کے حصوں کو ہم بلوچ بلوچستان میں شامل کیے بغیر نہیں رہیں گے اور بلوچ قوم نے اس قابض پاکستان کے کھینچے ہوئے لکیروں کو رد کر دیا ہے۔

● سیاسی سپیس کا وقت پر صحیح استعمال میں نہ لانا بھی ایک کمزوری قوم دوست ساتھیوں کی رہی ہے کہ انھوں نے سیاسی سپیس کو اس حساب اور اس وقت نہیں بھرا جتنی اس میں جگہ تھی اور جو وقت تھا۔ ساتھیوں نے مشرقی بلوچستان میں سیاست کے سنہرے وقت 2006__2013 تک کوئی خاص توجہ نہ دی۔ جب سرکار نے بلوچ سیاست پر کریک ڈاؤن شروع کی تب مشرقی بلوچستان کے ساتھی ہاتھ ملتے رہ گئے، مگر مشرقی بلوچستان میں سیاست کےلیے اب بھی سپیس ہے۔

” سیاست ایک نہ مرنے والا عمل ہے شرط یہ کہ وہ نظریہ مکمل طور پر آزاد و خودمختار ہو”

کیونکہ اتنی ظالم کریک ڈاؤن کے بلوچستان میں سیاست اور قومی جدوجہد کو ناکام بنانے والا پاکستان مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔

● قبائلی نظام اور کچھ فرسودہ روایات بھی قوم دوست ساتھیوں کی سیاست کے سامنے لازم مشکل بن کر کھڑے ہوئے ہونگے۔ مگر میری ذاتی رائے کے مطابق قبائلی نظام میں سیاست اگر شعوری طور کی جائے اور شعور یافتہ لوگوں کے ہاتھ میں دی جائے تو جتنی سیاست اس نظام میں ہوسکتی ہے کہیں نہیں ہوسکتی۔ قبائلی نظام میں کچھ روایات ایسی ہیں جو سیاست میں رکاوٹ بنتی ہیں جس طرح عورتوں کو نہ پڑھانے کا رواج، سیاست میں عورتوں کے سپیس کو خالی ہی رہنے دے گا کیونکہ وہ ان پڑھ ہیں۔ مشرقی بلوچستان میں تعلیم تو ویسے بھی کچھ خاص نہیں دی جا رہی جو کہ قابض کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ مگر اب کچھ حد تک شرح خواندگی ہے۔ اس نظام میں لوگ چیزوں کو سطحی طور پر دیکھتے ہیں اس بات کا اندازہ میں نے تب لگایا جب میں ایک مشرقی بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کے ساتھ مکالمہ کر رہی تھی۔

فرا:کیا آپ کو اب بھی لگتا ہے کہ بلوچستان آزاد ہوگا؟
ماہ:جی بالکل کیوں نہیں مجھے اس بات پر یر یقین ہے ہم ایک دن آزاد ہونگے۔
فرا: پھر ہمارا کیا حال ہوگا معلوم نہیں۔
ماہ: کیا مطلب ہمارا؟
فرا: مطلب پنجاب والے بلوچوں کا۔
ماہ: آپ پنجاب کے نہیں بلوچستان کے ہیں۔ آپ کیوں خواہ مخواہ اپنے آپ کو پنجاب میں گھسا رہی ہو۔ ہم تب آزاد ہوں گے جب راجن پور، ڈیرہ غازی خان جیکب آباد سے لے کر ہلمند اور البرز تک ہماری زمین پر ہمارا حق ہوگا۔
فرا: ڈیرہ غازی خان، جیکب آباد سے یا راجن پور جدوجہد نہیں ہوسکتی۔
ماہ: فرا! ہوگی،ضرور ہوگی ہم ضرور آزاد ہونگے ہمارے بہنیں، بھائی، ہم خون بہائیں گے جدوجہد ہوگی۔
فرا: اگر اکبر بگٹی سے، خیر بخش مری سے، بالاچ سے، جنرل اسلم سے نہ ہوسکا تو پھر دوبارہ کون ایسا لیڈر پیدا ہوگا جو آزاد کرے گا؟
ماہ: تم سیاست کرو، تعلیم کو عام کرو، قبائلی نظام کو مات دو، کتاب دوست معاشرہ بناؤ، خیربخش مری صاحب کے فلسفے کو عام کرو۔ اسی مشرقی بلوچستان سے سینکڑوں شہید جنرل اسلم پیدا ہوں گے جو دشمن پاکستان پر قہر بن کر ٹوٹیں گے۔ ہم آزاد ضرور ہوں گے مگر مجھے اور آپ کو خون پسینہ بہانا ہوگا۔

اس سہیلی کا یہ جملہ کتنا معصوم اور سطحی ہے کہ اب ہم کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ نوب اکبر بگٹی، شہید بالاچ مری، خیربخش مری، اسلم اب ہمارے ساتھ جسمانی طور پر نہیں۔

● جہد کار اور قومی ساتھیوں سے درخواست ہے کہ تعلیم کو کسی نہ کسی صورت عام کرو، ہر طرح ظلم پر سوشل میڈیا اور شہروں و دیہاتوں میں احتجاجیں کرو، مادری زبان کو بچانے کےلیے ہر طرح کی جدوجہد کرو۔ سرائیکی بولنے والے بلوچ کو یہ باور کراؤ کہ وہ بلوچ ہیں ہمارا مسئلہ غلامی ہے او حل آزادی ہے۔

امید کرتی ہوں وہ دن دور نہیں کہ مشرقی بلوچستان میں نوجوانوں کی آواز گرج کر سنگت ثنا، ذاکر مجید، شہید شفی کے آواز کی یاد تازہ کرے گی۔ مشرقی بلوچستان میں علم اتنا عام ہوگا کہ شال(کوئٹہ) کی یاد تازہ ہوگی۔ سنگلاخ پہاڑوں میں بندوقیں گرج کر شہید جنرل اسلم کی یاد تازہ کریں گے۔ اور بلوچ قوم آزاد بلوچستان کا مالک بن کر دنیا کے زندہ قوموں میں اپنا نام درج کروائیں گے اور اپنی پہلی نسلوں کی قربانیوں کو یاد کرکے آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔