بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے ممتاز سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کے ایک سو سولویں یوم پیدائش کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جی ایم سید کے سندھودیش کے تحریک آزادی کے لئے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ جدید سندھی نیشنلزم کے بانی ہیں۔ آج سندھی قوم ان کے فکر و فلسفے پرعمل پیرا ہوکر پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ جی ایم سید سیاستدانوں کے اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جو مظلوم قوموں کے روشن و باوقار مستقبل اور وسیع ترمفاد کے لئے واضح موقف کے ساتھ سامنے آئے۔ وہ اپنے عظیم کردار سے زندگی میں قومی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کا فکر و فلسفہ اور نظریات رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ بلا شبہ سائیں جی ایم سید ایک اعلیٰ پایہ کے سیاستدان اور قوم پرست لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مدبر اوراعلیٰ پایہ کے دانشور تھے۔ ممتاز قوم پرست رہنما جی ایم سید اپنے ہمعصر رہنماؤں میں علمی خدمات کی وجہ سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ سائیں نہ صرف ممتاز سیاستدان اور عملی رہنما تھے بلکہ ان کے علمی خدمات اس خطے کے کسی بھی لیڈر سے ہمیں زیادہ نظر آتے ہیں۔ سیاست کے علاوہ صوفی ازم، شاعری، تاریخ، اسلامی فلسفہ، عمرانیات اور ثقافت جیسے موضوعات پر انہیں نہ صرف کافی دسترس حاصل تھا بلکہ انہوں نے پچاس سے زائد سے کتاب بھی تصنیف کئے۔
انہوں نے کہا کہ عموماَ کہا جاتا ہے کہ سائیں جی ایم سید عدم تشدد کا علمبردار تھا لیکن ان کے تعلیمات واضح کرتے ہیں کہ ان کا یہ فلسفہ وسیع تناظر میں تھا جس کے ذریعے وہ آپسی تعلقات، برادر اقوام اورعالمی امن کا خواب دیکھتے تھے لیکن انہوں ایک سے زائد مرتبہ واضح کیا تھا کہ پاکستان کے خلاف انقلابی تشدد وقت کی عین ضرورت ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ سائیں جی ایم سید کی سیاست زندگی کا آغاز قیام پاکستان سے بہت پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ انہوں نے 1930ء کو اپنی عملی سیاسی زندگی کا آغاز سندھ ہاری کمیٹی کی تشکیل سے کیا۔ اس کے بعد انہوں نے بزم صوفی سندھ، سندھ یونائیٹڈ فرنٹ، جئے سندھ محاذ پارٹیاں بنائیں۔ وہ مختلف نشیب و فراز سے گزرے لیکن ان کی سیاست کا مرکز و محور سندھ اور سندھودیش ہی رہا۔ البتہ یہ بھی تاریخ کا جبر ہے کہ سائیں جیسے زیرک انسان پاکستان کی تخلیق کے عمل میں بھی شریک رہے لیکن پاکستان نے اپنے اس محسن کوبھی نہیں بخشا۔ جب سائیں نے یہ ادراک کیا کہ قیام پاکستان کے اصل مقاصد وہ نہیں جو بیان کئے گئے تھے بلکہ یہ ایک سامراجی ملک ہے جس کی اقتداراعلیٰ پنجاب اور پنجابی فوج کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ریاست دیگر قوموں کی زمین، تشخص، تہذیب و ثقافت اور وسائل کو ہڑپنے کے لئے وجود میں لایا جاچکا ہے۔ پاکستان قوموں کی وجود کے لئے زہرِ قاتل ہے۔ وہ جان چکے تھے کہ اگر اس کے خلاف بروقت جدوجہد کا آغاز نہ کیا تو ہماری بقا اور تشخص ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گی۔ اس کے بعد سائیں جی ایم سید نے کبھی مڑکر پیچھے نہیں دیکھا اور پوری زندگی سندھو دیش کی آزادی کی جدوجہد کے لئے وقف کردی۔
انہوں نے کہا کہ سندھودیش اور بلوچستان ایک غیر فطری ریاست کے زیر قبضہ ہیں۔ ہماری قومی بقا اور تشخص خطرے سے دوچار ہے۔ سندھ اپنی تہذیبی قدامت اورسندھی سماج اپنے سیکولر روایات، صوفی ازم اور پرامن فکر و فلسفے کی بدولت ہمیشہ خطے میں ممتاز حیثیت کا حامل رہا ہے۔ غلامی کے اندھیروں میں بلوچ قوم کی طرح سندھ بھی اپنی تہذیب و روایات اور اپنی سرزمین سے محروم ہوتا جارہا ہے کیونکہ پاکستانی ریاست یہ تہیہ کرچکا ہے زیر قبضہ تمام قوموں کے تاریخی تشخص کو مٹا کر انہیں ماضی کے تاریخی و تہذیبی وراثت سے بیگانہ کیا جائے۔ جب قومیں اپنے ماضی سے کٹ جاتے ہیں تو ان میں مزاحمت کی قوت باقی نہیں رہتی ہے۔ ہمیں یہ فخر حاصل ہے کہ بلوچ اورسندھی اس غیر فطری ریاست اور دشمن کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
بی این ایم چیئرمین نے کہا کہ پاکستان ایک غیر فطری ملک ہے جو کسی بھی ریاست کے ضروری بنیادوں سے محروم اور نام نہاد مذہبی نظریے پر مغربی طاقتوں نے اپنی مستقبل کے مفادات کے لئے وجود میں لایا ہے جبکہ بلوچ، سندھی اور پشتون ہزارہا سالہ تاریخ اور تہذیب کے مالک ہیں لیکن پاکستان کی مزید غلامی سے ہماری قومی بقاء شدید خطرات سے دوچار ہے۔ ہمیں اپنی اپنی قومی سرزمینوں پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ آج بلوچ قوم جس صورت حال سے دوچار ہے، سندھیوں کو بھی ایسی ہی سنگین نسل کشی اور استحصال کا سامنا ہے۔ لیکن زندہ قوموں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ انہیں زیادہ دیر تک غلام اور زیر نگوں بناکر نہیں رکھا جاسکتا ہے اور ان میں مزاحمت کی قوت ہمیشہ باقی رہتا ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ مشترکہ جدوجہد ہی میں بلوچ اور سندھیوں کا نجات ممکن ہے کیونکہ ہمیں مشترکہ دشمن کا سامنا ہے۔ پاکستان صرف بلوچ، سندھی اور پختونوں کا دشمن نہیں بلکہ عالم انسانیت کا دشمن ہے۔ اس درندہ ریاست کی شر سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ پاکستان اپنے سامراجی اتحادیوں کے ساتھ بلوچ، سندھی اور دیگر مظلوم اقوام کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ لوٹ مار اور استحصال اپنے عروج پر ہے۔ روز ہماری عزت اور آبرو کو ملیامیٹ کیا جارہا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ سندھی اور بلوچ مشترکہ محاذ کی جانب بڑھیں اورمشترکہ دشمن کو شکست دے کر اپنی اپنی قومی آزادی کی حصول کو یقینی بنائیں۔