ماوراۓ عدالت گرفتاریوں سے طلباء سیاست پر منفی اثرات
تحریر: اشفاق بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ایک پُرامن اور منظم طلباء تنظیم ہے، جو اپنی رسمی اور غیر رسمی تعلیمات کی وجہ سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے طلباء تنظیموں میں ایک اہم مقام رکھتی ہے، تنظیم طلباء سیاست کو منظم کرنے اور اسکی بحالی کے لئے پر امن طریقے سے جدوجہد کرتی آرہی ہے۔ تنظیم کا بنیادی مقصد طلباء اور طالبات کو ایک ایسا سیاسی پلیٹ فارم مہیا کرنا، جس سے طلباء وطالبات کوعلمی، تعلیمی، معاشی، ثقافتی، زبان اور ادبی ترقی کے لیئے بروئے کار لایا جائے اور انکی صحیح معنوں میں رہنمائی کرکے مستقبل کے رہنماء کے طور سامنے لایا جائے تاکہ وہ قومی اور سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی رہنماء اور ممبران تعلیم وعلم اور کتاب دوستی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں، وہ کتاب کو ہی اپنا وسیلہ اور راہِ نجات سمجھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ کتاب کی روشنی سے ہی ہم آشنا ہوکر اپنی راہِ منزل کوروشن چراغاں کر کے اُسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بقول پروفیسر منظور بلوچ “ کتابوں کو صرف پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے سوالات کا جوابات ان میں تلاش کیا جائے”
اسی کتاب دوستی کے جذبے سے سرشار تنظیم نے کتاب کلچر کو فروغ دینے کےلئے “بلوچستان کتاب کاروان “ کے نام سے کتاب دوستی مہم کا آغاز کیا، جسکے ذریعے کتاب کلچر کو ملک کے کونے کونے تک پہنچایا گیا اور یہ کاروان ابھی بھی کامیابی کے ساتھ روشن مستقبل کے لئے اپنے راستے پر روان دوان ہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا قیام اس وقت عمل میں لایا گیا جب پورا بلوچستان مختلف قسم کی بحرانوں سے نبرآزما تھی، بلوچستان کو علمی، تعلیمی، سیاسی، شعوری ، نفسیاتی ، سماجی، معاشرتی اور معاشی بحران کا سامنا تھا۔
بلوچ طالبعلموں کے لئے سیاسی پلیٹ فارم کا فقدان تھا، جہاں وہ اپنے سیاسی اور شعوری خیالات کا آزادی کے ساتھ اظہار کر سکیں، سیاست قدغن کا شکار تھا، تحقیق وتخلیق طلباء کو دور کرکے انکے سوچوں کو محدود کیا جا رہا تھا تاکہ وہ اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے سے غافل رہیں۔
بلوچستان کے اس سیاسی اور سماجی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دانشمندانہ فیصلے کے تحت بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا بنیاد رکھ دیا گیا تاکہ طلباء وطالبات کی جمہوری حقوق کے لئے پُرامن جدوجہد کیا جاسکے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اس وقت اپنی ارتقائی عمل میں ہے جوکہ مختلف قسم کے کامیابیوں سے ہمکنار ہوکر بلوچ طلباء سیاست کو توانائی بخش رہی ہے۔
لیکن حال ہی میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی مرکزی رہنماؤں کی ماورائے عدالت گرفتاری سے تنظیم کی جمہوری جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی، 29 مئی 2019 کو بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے سابق وائس چیئرمین فیروز بلوچ کو اسکے کزن جمیل بلوچ کے ہمراہ قلات کے مقام سے اغواہ کیا گیا تھا، جب وہ اپنے علاقے پنجگور کی طرف جا رہے تھے 7مہینے سے زیادہ کا عرصہ گذر جانے کے باوجود فیروز بلوچ کو بازیاب نہیں کیا گیا جبکہ اسکے کزن کو گذشتہ دن بازیاب کر دیا گیا ہے۔
اسکے ساتھ ہی بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر وہاب سیاہل کو 10دسمبر کو انکے گھر گوادر سے اغواء کیا گیا تھا جہاں وہ چھٹیوں کے سلسلے میں اپنے گھر والوں سے ملنے کے لئے گیا ہوا تھا۔
فیروز بلوچ اور وہاب سیاہل دونوں بلوچستان یونیورسٹی میں زیر تعلٰیم تھے، جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں، انکو لاپتہ کرنے سے انکے گھر والوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو شدید خوف میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔
بلوچستان میں طلباء سیاست کو جرم اور گناہ تصور کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ سیاست بری چیز ہے اور صرف وقت کا ضائع کرنے کا طریقہ کار ہے یہ سب بنی بنائی باتیں ہیں۔
حقیقت میں طلباء سیاست اجتماعی تبدیلی کا باعث بنتا ہے، جس سے منفی تبدیلیوں کا روک تھام کیا جا سکتا ہے اور مثبت تبدیلیوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بھی عرصہ دراز سے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے متحرک ہے اور نوجوان میں سیاست پر اعتماد بحال کرنے کے لئے پرعزم ہے کیونکہ بلوچستان میں طالبعلموں کا طلباء سیاست سے دور ہونا اس میں عملی کردار ادا نہ کرنا، یہ سب کچھ اتفاقی طور پر نہیں ہو رہاہے بلکہ شعوری طور پر ایک منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے، تنظیمی رہنماؤں کو ایک ایسے دور میں گرفتار کیا گیا، جب تنظیم بلوچستان میں موجود دوسرے طلباء تنظیموں کے ساتھ ملکر طلباء سیاست پر لگے پابندی کو ختم کرنے کے لئے جدوجہد کر رہاہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کی ماورائے عدالت گرفتاری انکی جمہوری جدوجہد کو سبوتاژ کرنے اور بلوچستان میں طلباء سیاست کو دیوار سے لگانے کی کوشش ہے، اس عمل سے بلوچستان میں طلباء سیاست پر منفی اثرات مرتب ہونگے جوکہ پہلے قدغن اور تنزل کا شکار ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔