قومی ارتقاء میں خواتین کا کردار
خالدہ بلوچ
نائب صدر ایس ایس ایف خواتین ونگ
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ کے تمام ادوار میں قوموں کی داستانیں بڑی باریک بینی سے قلمبند ہیں، قومیں مٹتی بھی ہیں اور ابھرتی بھی ہیں اور اِس مٹنے یا ابھرنے کا عمل کسی بھی قوم کے اندر موجود لوگوں کی مابین اتحاد ، اتفاق، اُن کی سوچ و فکر ، اپنی تاریخ سے بلدیت ، قوم پرستی اور اپنے کندھوں پر عائد اپنے عہدوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف و مخلصی ہے۔ دنیا میں وہی اقوام خود کو زندہ رکھ پائے ہیں جہاں رہنماؤں نے انفرادی سوچ پر اجتماعی و قومی سوچ کو ترجیح دے کر اپنے سرزمین کی باسیوں (مرد و خواتین) کو فلاح و بہبود میسر کی اور لامحالہ کسی بھی قوم کی ترقی و ترویج کا بنیادی عنصر تعلیم ہے لہٰذا آسان بھاشا میں کہیں تو قومیں زندہ تب رہتی ہیں جب وہ علم و حکمت سے جڑے رہیں کیونکہ یہی تو وہ چراغ ہے جو کسی بشر کو اپنی ذات سے واقف کرتا ہے , اس کی اصلاح کرتا ہے ,اسے بحیثیت ایک قومی فرد, بحیثیت ایک انسان عقل و فہم سے نوازتا ہے اور سماج میں اپنی ذمہ داریوں سے آشنا کرتا ہے۔ اور تب ہی تو انسان انفرادی یا اجتماعی حوالے سے صحیح اور غلط میں تمیز کرپاتا ہے , انسانیت کو فروغ دے پاتا ہے۔
جہاں بات تعلیم کی ہوتی ہے وہاں یقیناً مساوات بھی توجہ کا مرکز بنتی ہیں اور مساوات مرد و خواتین دونوں کو تعلیم سے ہمکنار کرنے کا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک معاشرہ میں عورت کی تعلیم بنسبت ایک مرد کے ذیادہ نفع بخش ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے زندگی کے ہر میدان میں مردوں کو فتح تب ہوئی جب خواتین ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے، اور نتیجتاً قومیں ذندہ رہیں ۔
بالکل اسی طرح آج بلوچستان پوری دنیا میں وہ واحد خطہ قرار دیا جاتا ہے، جو بےشمار قدرتی وسائل کا زخیرہ رکھتے ہوئے بھی اپنے باسیوں کو علم جیسے شمع سے ہمکنار نہیں کر پایا , جہاں تعلیم و تعلیمی ادارے نہ ہونے کے مترادف ہیں اور اگر چند ادھ ادارے ہیں تو وہاں بھی کہیں طالبعلم تو کہیں اساتذہ کا فقدان رہتا ہے ، اور ادارے ایک ویران جگہ کا منظر پیش کررہی ہوتی ہیں۔
خواتین سے منسلک فرسودہ و پسماندہ وہ سوچ آج بھی میرے معاشرے میں عروج پر ہے جو ان کے لئے تعلیم کو غیر ضروری قرار دے کر انہیں محض چاردیواری میں قید رکھتی ہے , یا ایک محدود تعلیم کی اجازت دے کر مستقبل میں اس سے استفادہ ہونے سے گریز کراتی ہے , آج بھی ایک لڑکی کو علاقائی اداروں کی تعلیم تک محدود رکھا جاتا ہے اور اس میں چھپی صلاحیتوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہےاور نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جہالت ، فرسودہ سوچ، بدکرداری، غیرذمہ دارانہ افعال ، غربت ، غیر اخلاقیات جیسے صفات میں عروج پر اور عمدہ مفکر ، ادیب ،شاعر، اساتذہ، پروفیسر ، حتیٰ کہ ہر شعبہ جات میں قلت کا شکار ہے ۔ جہالت و پسماندگی کے اس گھٹا ٹوپ بادل کو زائل کرنے کی غرض سے بطورِ ایک قومی فرد ہمارا بنیادی عزم خود کو اس مشن کے لئے ایمانداری اور مخلصی سے وقف کردینا ہے۔
اِس مقصد کے لئے سیو اسٹوڈنٹس فیوچر کی تنظیم نے ایک پُرفکر خیال سامنے رکھتے ہوئے (women wing) تشکیل دے کر خواتین کے مستقبل سے پیوست پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی ہے جو بالخصوص بلوچستان بھر میں خواتین کو تعلیم کی دنیا سے جوڑ کر, انہیں ہرطرح کی بنیادی جانکاری فراہم کرکے , جمودی خیال کا ازالہ کرکے انہیں تعلیمی سمت میں متحرک کرکے ایک خوشحال , ترقی یافتہ معاشرہ اور نسل کی ترویج کرنے کی کاوش کرےگی ۔ اور یقیناً اِس راہ پر ہم اپنے بلوچ قوم کے معاونت کی آس رکھیں گے کہ وہ اپنے خاندان میں خواتین کو علم کے حصول کی غرض سے ہر طرح کی رضامندی دینگے تاکہ بلوچ قوم دنیا میں جدیدیت اور ترقی کا مظاہرہ کرکے اپنی مقام بنا سکے اور ترقی یافتہ حلقوں کے برابر چل کر خود کو زندہ رکھ سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔