شہید دودا؛ ایک مہربان بھائی – زرین بلوچ

971

شہید دودا؛ ایک مہربان بھائی

تحریر: زرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان پر جب بھی کوئی قابض ہوا ہے تو بلوچستان کے بہادر فرزندوں نے اپنے سرزمین کا دفاع کیا ہے، جب 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے شہادت کے بعد بلوچستان میں آزادی کا جنگ تیز ہوا تو شاید ہی ایسا کوئی گھر ہو جو اسکا حصہ نہ بنا ہو۔ اسی طرح میرا گھر بھی اس جنگ کا حصہ تھا، اس وقت میں چھوٹا تھا، مجھے یاد ہے میں گلی میں کھیل رہا تھا کہ گھر سے رونے کی آواز آنے لگی، میں بھی دوڑتے ہوئے جب گھر میں داخل ہوا تو ہر کوئی رو رہا تھا اور امی بےہوش پڑا تھا، پوچھنے پر پتا چلا کے کزن کا شہادت ہواہے، کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ تو بولا گیا کہ وہ مسلح جدوجہد کا حصہ تھا اور آج شہید ہوا ہے۔ پہلی بار میں نے اپنے گھر میں ایسا ماحول دیکھا تھا، اس کے بعد ایسا ماحول اکثر ہوا کرتا تھا۔ اب گھر ویران سا تھا کیونکہ جن سے گھر کی رونق تھی وہ گھر سے دور پہاڑوں پہ بسیرا کر بیٹھے تھے اور ہر کوئی ہم سے پوچھتا تھا فلانا کہاں ہے، کیا کر رہا ہے تو ہمیں جھوٹ بولنا پڑتا کے وہ خلیجی ممالک میں ہے اور وہ ہنستے ہوئے چلا جاتا۔ کچھ دنوں بعد پھر وہی شخص وہی سوال دہراتا اور ہم وہی جواب دیتے، پتہ نہیں انہیں ہم سے ہمدردی تھا یا ہم پر ہنسنے کے لیئے ایسا کرتے تھے۔

رشتہ دار ایسے دور ہوگئے جیسے ہم نے بہت غلط کام کیا ہو، وقت گذرتا گیا، اپنوں کی شہادت ہمیں مظبوط کرتا گیا، ماحول سے سیکھتے رہے، ہم نے بھی اپنے دماغ میں ایک منزل سیٹ کیا ہوا تھا اور اسی طرف بڑھتے گئے، پھر وہ وقت آیا اب مجھے بھی گھر خیرباد کہنا پڑا، دوستوں کے مطابق میں نکل پڑا، دو تین دن بعد میں وہاں پہنچ گیا یہاں کوئی مجھ سے پوچھنے والا نہیں تھا تم کہاں سے آئے ہو، تمہارے بھائی یا ابو کہاں ہیں؟ کیا کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے تھے ہم سب یہاں کس مقصد کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں، یہاں ہر کسی میں مہرومحبت تھا اور یہیں میرا ملاقات سنگت دودا سے ہوا، ہمیشہ چہرے پے مسکراہٹ سجائے رکھتا اور بہت جلد ہم مل جل گئے اور ہمیشہ دودا کے محفل میں بیٹھنے کا موقع ملتا۔ شہید دودا کو ہمیشہ ایک مہربان بھائی کی طرح پایا، وقت گذر تا گیا، دودا اب کام کے سلسلے میں آگے جارہا تھا اور اپنے آگے کے سفر کی تیاریوں میں تھا، ایک دن وہ چولہے پر کچھ اُبال رہا تھا، میں نے پوچھا کیا کر رہے ہو؟ دودا ہنستے ہوئے بولا مواد بنانے کا فارمولا ہے، آجاو تم بھی سیکھو۔

جس سفر کی دودا تیاری کر رہا تھا، اسکے آدھے منزل کا مسافر میں بھی تھا، سفر پہ نکلنے سے پہلے کسی سنگت نے دودا سے کہا دیکھو شہید مت ہونا ابھی ابھی تو تمہارا شادی ہوا ہے، اپنے بچے کو بھی دیکھنا ہے، یہ بولتے ہی ہم سب ہنسنے لگے، اسکے بعد سفر پہ نکلے، اس سفر میں میں نے سنگت دودا کو ایک بھائی کی طرح پایا، وہ بڑے بھائی کی طرح میرا خیال رکھتا اور بار بار پوچھتا زرین جان جگہ تو تنگ نہیں؟ زرین جان سردی تو نہیں لگ رہا؟ زرین جان بھوک تو نہیں لگا ہے؟ سفر کے دوران جہاں سونے کے لیے رکتے تو سب سے پہلے دودا کا ہاتھ کسی اچھے کمبل کی طرف بڑھتا، اپنے لیے نہیں میرے لیے اور اسکے بعد خاموشی سے کھڑا رہتا باقی دوست اپنے لیئے کمبل اٹھاتے اور جو بچ جاتا وہ دودا اپنے لیے اٹھاتا۔ کبھی تو اس سردی میں بھی نیچے اپنا چادر بچھا کر ہلکے سے کمبل میں سو جاتا۔ اسکے بعد ایک جگہ پہنچ کر کچھ دن وہاں رہنے کے بعد سنگت دودا آگے کے سفر کو نکلا اور ہم وہیں رکے۔ جاتے وقت سنگت نے رخصت نہیں کیا اور کہا زرین جان ’’اوارُن‘‘ (ایک ساتھ ہے) یہ بول کر وہ نکل گئے۔

اس وقت کو میں تصویر میں قید کرنا چارہا تھا پر میں نے مناسب نہیں سمجھا، اب سنگت کام کرتے رہے، ہم وقت گذارتے رہے پھر 29 جنوری کا وہ دن بھی آیا جب کچھ سنگتوں کے جھڑپ کی اطلاع ملی، ایک سینئر سنگت مسلسل رابطہ کرتا رہا کہ سنگتوں کے بارے میں معلوم ہوسکے، اتنے میں آپ کا نام کانوں میں پڑا دل میں گبھراہٹ اور زیادہ ہوا، سنگت کا کال کاٹتے ہی میں نے پوچھا کیا دودا بھی اس جھڑپ میں ہے؟ سنگت نے کہا ہاں ایسا سننے میں آرہا ہے، میں نے پھر پوچھا کتنے سنگتوں کے شہادت کے اطلاعات ہیں؟ سنگت نے کہا پانچ، یہ سنتے ہی میرے سامنے آپ کا مسکراتا چہرا آرہا تھا آپکے ساتھ بتائے ہوئے وہ پل یاد آ رہے تھے میرے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اپنا گردن نیچے کرکے وہاں بیٹھے لوگوں سے اپنے آنسوؤں کو چھپانا چاہا مگر آنسو رک نہیں رہے تھے وہ شاید مجھے کمزور سمجھے مگر میں کہونگا شاید انہوں نےآپ کو قریب سے نہیں دیکھا ہوگا کیونکہ آج ہر وہ آنکھ نم اور لبوں پہ آہ تھی جس نے آپ کو قریب سے دیکھا تھا۔ اوارُن سنگت


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔