شکریہ اختر مینگل اور حقائق
تحریر: مراد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ ریاستی عقوبت خانوں سے ١٥ تا ٢٠ لاپتہ بلوچ فرزند بازیاب ہوئے ہیں- سب سے پہلے ان بھائیوں کو میں اپنی طرف سے نئی زندگی کی مبارک باد دیتا ہوں- اس بات کو لے کر سوشل میڈیا میں ایک ٹرینڈ گردش کر رہا ہے کہ “شکریہ اختر جان”… چند لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ لاپتہ افراد اختر مینگل کی وجہ سے بازیاب ہوئے ہیں۔ کیوںکہ اختر نے جو چھ نکات پیش کئے تھے، ان میں سے ایک لاپتہ افراد کی بازیابی ہے۔ اور اس نے عوام کے سامنے حکومت کو چنوتی دی تھی کہ اگر لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وہ اور اس کا پارٹی حکومتی اتحادی سے علیحدگی اختیار کریں گے- چند بیوقوف بہت خوش ہوئے اور اختر مینگل کو اپنا ہیرو ماننے لگے- اور تو اور کچھ لوگوں نے اسے قائد بلوچستان قرار دیا۔
اب چلتے ہیں اپنے اصل موضوع کی جانب… شائد سب لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ بلوچستان میں سب سے پہلا لاپتہ ہونے والا شخص اختر مینگل کا بھائی اسد مینگل ہے جو آج سے تقریباً پینتالیس سال قبل قابض فوج کے ہاتھوں لاپتہ کیا گیا- آج تک اس کا کوئی خبر نہیں کہ وہ کس حال میں ہے؟ زندہ بھی ہے یا باقی بلوچ نوجوانوں کی طرح شھید کرکے کسی ویرانے میں پھینک دیا گیا ہے۔
اختر مینگل صاحب جو آج تک ریاست سے اپنے بھائی کو بازیاب نہیں کرا سکا. بازیاب کرانا اپنی جگہ اس کے بارے میں ان اداروں سے سوال نہیں کر سکا، جو اس کے ذمہ دار ہیں کہ وہ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ تو آپ کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ وہ باقی لاپتہ اسیران کو بازیاب کراسکتا ہے۔ وہ کیسے قابض فوج سے مقابلہ کرکے لاپتہ بلوچ فرزندان کو بازیاب کراسکتا ہے۔
اس بات سے تمام لوگ بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ پاکستان میں حکومت صرف اسٹیبلشمنٹ کا ہے، جو اپنے سواء کسی کی نہیں سنتے۔ یہ سلیکٹڈ حکومتیں صرف اسٹیبلشمنٹ کی سیاست ہیں۔
اس سے ایک بات واضح ہوتا ہے کہ اختر مینگل اگر واقعی لاپتہ اسیران کو بازیاب کروانا چاہتا ہے تو اسے پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کیخلاف تحریک اپنانا ہوگا، ان کا مقابلہ کرنا ہوگا جو اختر مینگل کبھی نہیں کریں گے۔ میرے کہنے کا مطلب کہ یہ سب دکھاوا ہے۔ فوج اور آئی ایس آئی کی طرف سے بلوچ قوم کو گمراہ کرنے کے لئے، اختر مینگل کو ہیرو بنانے کے لئے اور اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے سالوں سے بلوچ قوم کیخلاف یہ سازش رچایا جا رہا ہے-
اگر اختر مینگل کے دھمکی سے فوج ڈر جاتا تو وہ کبھی ان لوگوں کو اٹھاتا ہی نہیں۔ دراصل وہ اختر مینگل سے زیادہ اُن لوگوں کے شعور سے ڈرتا ہے جن کو اس نے لاپتہ کیا ہے۔
وہ خوفزدہ ہے بزرگ ماما قدیر، ماؤں، بہنوں اور بچوں سے جو سالوں سال بھوک ہڑتالی کیمپ میں سردی، گرمی، بھوک، پیاس اور اپنوں کے دردوں کو برداشت کر رہے ہیں… جو ہزاروں کلومیٹر پیدل لانگ مارچ کر رہے ہیں اپنے پیاروں کے لئے۔
آج اختر مینگل جو خوشحال زندگی بسر کرکے فوج کے حکم مطابق اسمبلی میں چار جذباتی الفاظ کا رٹا لگا کر قوم کو اپنی طرف مائل کرتا ہے تو اسے آپ قومی ہیرو سمجھتے ہیں۔ قوم کے سامنے خود کو قوم کا ہمدرد لیکن دوسری جانب اسمبلی میں بیٹھ کر قابض فوج کی حکم کا تابع ہونا منافقت کی کھلی نشانی ہے۔ دراصل اس کا مقصد فوج کو خوش کرنا اور عوام کا بھروسہ جیت کر ان کو دھوکے میں رکھ کر اپنی خوشحال زندگی بسر کرنا ہے۔ کیونکہ وہ اس بات سے خوب واقف ہے کہ یہ غلام سوچ حقیقت کی راہ سے زیادہ جذباتی باتوں کو قبول کرتا ہے-
آغا حسن کہتے ہیں کہ “اگر چار ووٹ کے بدلے لاپتہ افراد مل جائیں تو اچھا سودا ہے”۔
ارے شرم آنی چاہیئے ان ضمیر فروشوں کو جو اپنے لوگوں کو بازیاب کرنے کے لئے دشمن فوج کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ فوج جس نے خود انہی لوگوں کو لاپتہ کیا ہو تو تم اسمبلی میں کیوں بیٹھے ہو اور بڑی بڑی بات کرتے ہو-
رہی بات بازیاب ہونے والوں کی تو قبضہ گیر فوج اختر مینگل کو بلوچ قوم کے سامنے ایز اے ہیرو بنانے کے لئے جو اس (فوج) کو اپنے حق میں بہتر لگا ہے۔ اگر چار لوگ بازیاب بھی ہوئے ہیں تو اس کے بدلے اگلے دن فورسز کے ہاتھوں بیس بلوچ فرزند اور لاپتہ ہوگئے ہیں۔
دراصل یہ سب لوگ جو اسمبلی میں بیٹھے ہیں یہ سب قبضہ گیر فوج اور خفیہ اداروں کے کٹھ پتلی ہیں جو بلوچوں کو لاپتہ کرنے اور اس کی نسل کشی میں فورسز کیساتھ برابر کے شریک ہیں- قوم کے ہیرو نہیں بلکہ قوم کے مجرم ہیں۔ بس اب لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو ایماندار ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔
لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے میں سب سے نمایاں کردار ماما قدیر کا ہے جو اس ضعیف عمر میں بھی حقیقی جہدوجہد کا راستہ برقرار رکھ کر اپنا قومی فرض ادا کر رہا ہے۔ تمام لاپتہ اسیران کے لواحقین کی آخری امید بھی ماما قدیر ہے اور ان کا رہبر بھی وہی ہے-
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔