سیو اسٹوڈنٹس فیوچر کےچیئرمین فضل یعقوب بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ سکندر یونیورسٹی کو جھالاوان میڈیکل کالج میں ضم کرنا بلوچستان کے باسیوں کے لئے تعلیم کے دروازے بند کرنے کی سازش ہے۔
جی ایم سی ایک الگ ادارہ اس کے لئے نہ صرف فنڈز مختص ہوئے ہیں بلکہ خضدار سورگز کے مقام پر اراضی بھی مختص کی گئی ہے، اب محکمہ صحت اور صوبائی حکومت جی ایم سی کی فنڈ میں اپنے کرپشن کو چھپانے کے لئے یہ سازش کررہے ہیں ۔
انہوں نے کہا جے ایم سی ایک صوبائی ادارہ ہے جس کو مانیٹر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کرتا ہے اور سکندر یونیورسٹی ایک وفاقی ادارہ ہے جو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے زیر نگرانی میں ہے، تو یہ دونوں ادارے کیسے ضم ہو سکتے ہیں؟ یہ ایک غیر قانونی اور غیر آئینی عمل ہے اسکو چیلنج کرکے عوام عدالت میں بھی جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا بلوچستان حکومت کو چاہیے تھا کہ نئے ادارے تعمیر کرتا بجائے کہ پہلے سے منظور شدہ وفاقی اداروں کو بند کرتا، بلوچستان کے غیور باسیوں کو اس سازش کو سمجھنا چاہیے اور اس متعصبانہ فیصلہ کی مخالفت کرکے اس سازش کو ناکام بنانا چاہیئے ورنہ اس کا نقصان ہمارے نسلوں کو بھگتنا پڑے گا اور اس فیصلہ کے خلاف ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے یہ مسئلہ صرف جھالاوان کےلوگ اور طلباء کا نہیں بلکہ ہر اس فرد کا ہے، جسے اس کے ثمرات سے روشناس ہونا ہے۔
چیئرمین نے کہا یہ مسئلہ صرف خضدار کا نہیں بلکہ پورے بلوچستان کا ہے، اس لیئے اسے بلوچستان کا مسئلہ سمجھ کر بلوچستان کے ہر باسی کو کوہلو کہاں سے لیکر گوادر تک اس کے خلاف جدوجہد کریں۔
انہوں نے کہا ہمارے ہاں ایک بدقسمتی یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں نمودار ہونے والے ایسے مسائل کا ٹھیکہ صرف طلباء کو دیا جاتا ہے، بلکہ یہ مسائل اجتماعی ہوتے ہیں لہذا تمام سیاسی جماعتوں سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو طلباء تنظیموں کے ساتھ مل کر ایسے سازشوں کو ناکام بنانی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا دوسرا مسئلہ ہمارے لوگوں کی کچھ دن بعد خاموش ہونا ہے، جو ابتداء میں تو کافی متحرک اور پر جوش ہوتے ہیں مگر بعد میں جاکر ٹھنڈے پڑجاتے ہیں جس سے مسائل سرد خانے کا شکار ہوجاتے ہیں، جس کی واضح مثال یونیورسٹی آف بلوچستان اسکینڈل اور بولان میڈیکل کالج گرلز ہاسٹل میں خواتین کی بے حرمتی ہے، لیکن اس مرتبہ اس مسئلے کے لئے ہرطبقہ فکر کے لوگ متحرک ہوجائیں خواہ وہ بلوچستان کے کسی بھی کونے سے ہو، اور احتجاج کی شدت اتنی ہو کہ پالیسی بنانے والے نہ صرف اس فیصلہ کو واپس لیں بلکہ آئندہ کےلئے بھی اس طرح کے غیر منصفانہ اور تعلیم دشمن فیصلہ کرنے سے اجتناب کریں۔
انہوں نے آخر میں کہ عوام کو چاہیے کہ نہ صرف سکندر یونیورسٹی کو جھالاوان میڈیل کالج میں ضم نہ کرنے کا مطالبہ کریں بلکہ جھالاوان میڈیکل کالج کے لیے الگ بلڈنگ کا مطالبہ، سکندر یونیورسٹی میں کلاسسز کا اجراء اور گرلز پولیٹیکنک کالج کی بحالی جس میں عارضی جے ایم سی کو فعال کیا گیا تھا ساتھ ہی کل بمورخہ 25 جنوری 2020 کو خضدار میں ایک ریلی نکالی جارہی ہے،عوام کو چاپیے کہ اس میں شرکت کرکے کامیاب بنائیں اور بلوچستان کے باقی اضلاع میں بھی اس گھنائونی فیصلے کی خلاف مظاہرے اور احتجاج کا انعقاد کریں۔