کراچی میں پٹیل پاڑہ سے 15 نومبر 2017 کو چار بلوچ طالب علموں کو پاکستانی فورسز کی طرف سے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا، لاپتہ افراد میں سے تین کا تعلق بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد سے تھا جن میں بی ایس او کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثناء اللہ بلوچ اور مرکزی کمیٹی کے دو ارکان حسام بلوچ اور نصیر احمد اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے رکن رفیق بھی ان افراد میں شامل تھے۔
جبری طور پر لاپتہ باقی تمام افراد مختلف اوقات میں رہا ہوگئے لیکن بلوچ نیشنل موومنٹ کے رکن طالب علم رفیق بلوچ دو سال بعد بھی رہا نہیں ہوسکے۔
رفیق بلوچ کی ہمشیرہ سعیدہ بی بی نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جبری طور پر لاپتہ کیئے گئے میرے بھائی رفیق بلوچ کو دوسال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے لیکن وہ تاحال گمنام اور پابند سلاسل ہیں۔
سعیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ بھائی کی باحفاظت بازیابی کیلئے کل بروز بدھ سوشل میڈیا پر #SaveRafeeqBaloch کے ہیش ٹیگ کے ساتھ کمپئین چلانے کا اعلان کرتی ہوں، تمام انسان دوست اداروں اور سیاسی پارٹیوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اس مہم میں ساتھ دیں۔
خیال رہے بلوچستان جبری گمشدگیوں کا مسئلہ تشویشناک صورتحال اختیار کرچکا ہے جبکہ ان افراد میں سیاسی کارکنان اور رہنماوں بڑی تعداد شامل ہے۔
ان جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں سمیت سوشل میڈیا پر آواز اٹھایا جاتا رہا ہے۔