درجن بھر لاپتہ افراد بازیاب
شکریہ اختر جان
تحریر : عابد میر
دی بلوچستان پوسٹ
یہ آج کی بڑی خبر ہے۔ اچھی خبروں کو ترستے درد میں ڈوبے ہمارے وطن کے لیے سب سے اچھی خبر۔
آج کے دن میں بلوچستان بھر میں اب تک گیارہ افراد بازیاب ہو کر گھروں کو پہنچے ہیں۔ کوئی دو سال سے لاپتہ تھا، کوئی دس سال سے۔ ہزاروں والی فہرست میں گیارہ کا ہندسہ گنتی کے لحاظ سے بھلا کیا معنی رکھتا ہو گا، مگر اس کے حقیقی معنی تو ان گیارہ خاندانوں سے پوچھیے۔ ان گھروں میں آج عید کا سماں ہو گا۔ آج بلوچستان کی گیارہ مائیں برسوں بعد سکھ کی نیند سوئیں گی۔ گیارہ سہاگنوں کی آنکھیں پھر سے خواب بونے کے قابل ہوں گی۔ درجنوں بہنوں کی اشک بہاتی آنکھوں میں سکون کی نیند آئے گی۔ درجنوں بچے آج قلکاریاں مار کر ہنسیں گے، مسکرائیں گے۔
کاش ہمارے ٹوٹے ہوئے قلم اپنے دیس کی یہ درد بھری کہانیاں لکھنے کے اہل ہوتے تو دنیا شاید شیکسپیئر کی لکھی ٹریجڈی بھول جاتی۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ماما قدیر اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سمیت سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کی ان تھک جدوجہد اپنی جگہ، لیکن ہمیں یاد ہے کہ ڈیڑھ برس قبل لاپتہ افراد کی صرف مسخ شدہ لاشیں آتی تھیں، ان ڈیڑھ برسوں میں مگر کوئی سو لوگ واپس آئے ہیں۔ اس لیے جب سال پہلے پہلا لاپتہ بلوچ واپس ہوا تھا تو میں نے لکھا تھا، ’’شکریہ اختر جان‘‘۔ (بی این پی کے جیالے شاید ہی جانتے ہوں کہ ان کا یہ مقبول نعرہ پہلی بار اُن کی پارٹی کے سخت ناقد کی اسی وال پہ تخلیق ہوا تھا)۔
ہمیں اختر جان کے سخت ناقدین میں گنا جاتا ہے۔ ان سے ہمارا سیاسی اختلاف ڈھکا چھپا نہیں۔ لیکن لاپتہ افراد کی بازیابی کا کریڈٹ میں اختر جان کے حصے میں ہی ڈالتا ہوں۔ ہم سب مل کر بھی برسوں چیختے چلاتے رہیں، سرکار کے کان پر جوں نہیں رینگتی، اختر جان کی اسمبلی میں ایک تقریر (جس پہ ہمارے تحفظات اپنی جگہ) سرکار کے لیے دردِ سر بن جاتی ہے۔ سو، انصاف کا تقاضا ہے کہ جس طرح ہم جائز تنقید کو اپنا حق سمجھتے ہیں، اسی طرح جائز تعریف بھی فرض سمجھنی چاہیے۔
حالیہ آرمی سروسز ایکٹ میں ووٹ کرنے پر اختر مینگل نہ صرف اپنے مخالفین و ناقدین بلکہ خود پارٹی ہمدروں کی طرف سے بھی سخت تنقید کی زد میں ہیں۔ ہم نے کم ازکم پہلی بار سردار اور ان کی پارٹی پر اس قدر کھلی اور بے رحمانہ تنقید دیکھی ہے، جس میں بالخصوص ان کا نوجوان کمیٹڈ ورکر پیش پیش ہے۔ ایسے میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی مُوو اختر جان کے لیے سیاسی طور پر بھی زبردست سہارا ہو گی۔ یہ بلاشبہ سیاسی بساط پر ان کی کامیابی ہی کہلائے گی۔
سو، آج ہمارے وطن کی جتنی مائیں مسکرائیں گی، ان سب کی مسکراہٹ اختر جان کے نام۔ جتنے بچے ہنسیں گے، وہ ساری ہنسی اختر جان کے نام۔ آج جتنی بہنیں دعاگو ہوں گی، وہ سب دعائیں اختر جان کے نام۔
سیاسی اختلاف جاری رہے گا، اس کامیابی پر مگر ایک بار پھر ’’شکریہ اختر جان‘‘۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔