خون آشام جنوری اور سوکھے پتے – حکیم واڈیلہ

642

خون آشام جنوری اور سوکھے پتے

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم کی گذشتہ سو سالہ تاریخ میں شائد ہی کوئی دن، ہفتہ، مہینہ، سال یا دہائی ایسا گذرا ہو جسے وہ آسودگی، امن، خوشحالی کی مثال کے طور پر پیش کرسکیں۔ ہر ایک دن، ہر ایک ہفتہ، ہر ایک مہینہ، ہر ایک سال اور ہر ایک دہائی بلوچستان میں خونریزی کی ایک الگ تاریخ بنا چکا ہے۔ مسخ شدہ لاشیں، جبری گمشدگیاں فوجی آپریشنز، بلوچ خواتین کی عصمت دری یہاں تک کہ بلوچستان کے جانور بھی اس ظلم و جبر کا شکار بن چکے ہیں۔

کہتے ہیں جہاں ظلم و جبر بڑھتا ہے تو وہاں اس ظلم و جبر کیخلاف علم بغاوت بھی بلند ہوجاتی ہے۔ مادر وطن کے نوجوان، طالب علم، تعلیم یافتہ لوگ، مزدور، کسان، ڈاکٹر، اُستاد ، دانشور خواہ زندگی کے ہر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ اس عمل کا حصہ بن کر قابض کے ظلم و جبر سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر شبینہ روز جدوجہد کا آغاز کردیتے ہیں اور وہ جدوجہد ایک ایسی خونی انقلاب کا شکل اختیار کرلیتی ہے کہ پھر وہ انقلاب اپنے ہی بچوں کا خون مانگتی ہے۔ پھر اس انقلاب کے آدرش، اصول اور مطالبات اس قدر پختگی اور ایمانداری کا تقاضہ کرتے ہیں کہ زندگی اور موت کے درمیان گذارے گئے ہر ایک سیکنڈ کو انقلاب کی خاطر قربان کردینا پڑتا ہے۔

انقلاب جس تیز رفتاری اور تندی سے منزل کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے، اس کے مطالبات اور قربانیوں کی مانگ بھی اسی تیزی سے بڑھ جاتی ہے۔ وہ اگر چہ پہلے مال و وقت کی قربانی کا مطالبہ کررہی ہوتی ہے لیکن اب انقلاب خون کی پیاسی ہے اب اس کی پیاس صرف مادر وطن کی مٹی پر گرے خون کے قطروں سے ہی بجھائی جاسکتی ہے، اب انقلاب کی آبیاری صرف لہو سے ہی کی جاسکتی ہے۔ یہ انقلاب ہی تو ہے جو ایک ڈاکٹر کو اپنے کلینک میں کام کرکے اچھے آمدنی کماکر ذاتی زندگی بسر کرنے کے بجائے پوری قوم کو غلامی کی بیماری سے نجات دلانے کی جدوجہد پر اکساتا ہے۔

یہ انقلاب ہی تو ہے، جو حالات کی سنگینیوں، سختیوں، دشمن کے پہروں، محاصروں، قتل عام، جبری گمشدگی خواہ ہر قسم کے ظلم و جبر کے باوجود ایک علم کے مینار، سیاست کی بلندیوں کو سر کرنے والے تاریخی رہنماء اور انکے ساتھیوں کو مستونگ میں قلم کی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عوام اور قوم کے درمیان موجود رہنے اور دشمن کے بندوق سے نکلے ہر ایک گولی کو سینے پر سجاکر دنیا سے جسمانی طور پر رخصت ہونے جیسا عمل کر گذرنے پر بغیر کسی افسوس اور ملال کے اکساتا ہے۔

یہ عمل وہاں رک بھی نہیں جاتا جہاں دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اس نے جنوری کی یخ بستہ راتوں میں ڈاکٹر منان اور ساتھیوں کو شہید کرکے اس انقلاب اور انقلاب سے پیدا ہونے والی شعوری جراثیم کا بلوچ قوم اور سماج سے ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیا ہے۔ جنوری کی اسی سرد موسم میں ڈاکٹر منان اور انکے چار ساتھیوں کی شہادت کو چار سال کا عرصہ مکمل ہونے پر مادرِ بلوچستان کے ایک اور کونے میں انقلاب اپنی خون کی پیاس کا مطالبہ یوسف کُرد اور اس کے چار ساتھیوں سے کر بیٹھتا ہے۔ اور یہاں بھی انقلاب سے بے پناہ محبت کرنے والے، عقیدت کرنے والے، انقلاب کو پوجنے والے اور انقلاب کو اپنا ایمان سمجھنے والے بہادری ایمانداری شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف دشمن سے دلیرانہ وار مقابلہ کرتے ہیں بلکہ موت کا استقبال بھی مسکراہٹ سے کرتے ہیں۔

یہ انقلاب، جو خونی انقلاب ہے، یہ انقلاب جس کی پرورش ابھی اور بھی ہونی ہے یہ انقلاب جو نجانے اور کتنے نوجوان اور ماؤں کے شہزادوں کو اپنی آبیاری کی خاطر قربان ہونے کا درس دیگی اور وہ شہزادے، وہ دیوانے، وہ وطن زادے، وہ مرید اپنی محبت، اپنی عقیدت، اپنی ایمانداری کا ثبوت اپنے لہو سے دینے سے باز بھی نہیں آئینگے۔ وہ جو اس عمل میں جسمانی طور پر بچھڑ جائیں وہ جو نوجوانی میں شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوجائیں وہ جو اپنی آرام دہ زندگیوں پر انقلاب اور انقلابی موت کو فوقیت دینگے وہ ان درختوں کی مانند ہوجائینگے جنکے پتے اگر چہ جنوری کی سردیوں میں سوکھ جائینگے لیکن جب بھی بہار کا موسم آئیگا جب بھی پھل اور پھول کا موسم آئیگا تو انہی درختوں کی شاخوں پر پھل اور پھول لگے ہونگے اور لوگ انہی کی چھاوں میں بیٹھ کر اپنی آزادی کو محسوس کرینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔