خان قلات قومی نمائندہ نہیں بلکہ ایک شکست خوردہ نظام کی آخری علامت ہیں – ڈاکٹر اللہ نذر

1256

خان قلات قومی نمائندہ نہیں، طبعی موت مرچکے نظام کی آخری علامت ہیں، نام نہاد ”خان ِقلات“ اپنی سیاسی طبعی عمر گزار چکے، محض دقیانوسی قبائلیت کی آخری نشانی ہیں۔ بلوچ رہنماء

 ان خیالات کا اظہار بلوچ آزادی پسند قوم پرست رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیا ۔

انہوں نے کہا بلوچ قومی تحریک ایک منظم و مسلسل ارتقائی عمل سے گزر کر اس مقام تک پہنچی ہے جہاں وہ کسی ایک فرد یا شخصیت پر انحصار نہیں کرسکتی بلکہ یہ تحریک بلوچ قوم کی اجتماعی میراث بن چکی ہے۔ پوری قوم اس تحریک کا پاسبان ہے اور بلوچ قوم نے تحریک کی نمائندگی کا فریضہ سیاسی پارٹیوں اور مسلح تنظیموں کو تفویض کیا ہے نہ کہ کسی ایک فرد کو۔

انہوں نے کہا کہ چند دنوں سے ایک امریکی صحافی آرمسٹرانگ ولیمز اپنے ٹی وی شو میں نام نہاد خان قلات کی پذیرائی کر رہے ہیں اور اسے ”کنگ آف بلوچ“ جیسے القابات سے نوازنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ جس نظام سے چھٹکارہ پاکر مغرب جدیدیت کی طرف بڑھ کر فلاحی ریاست و سماج بننے میں کامیاب ہوا ہے مگر تیسری دنیا کے غلام قوموں کے لئے وہ اب بھی اسی نظام کا خواہاں ہے۔ یہ بلوچ تحریک کے روح کے منافی اور بلوچ قوم کے مسترد کردہ نظام کی باقیات کو زندہ کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بلوچ قوم نے واضح کر دیا ہے کہ قومی تقدیر اور قومی نمائندگی کا فیصلہ بلوچ قوم کا اجتماعی اختیار ہے، کوئی بیرونی طاقت یا گروہ نہیں جو جسے چاہے تفویض کرے۔

قوم پرست رہنماڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی غلامی کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ اور بنیادی محرک دقیانوسی قبائلی نظام اور قبائلی شخصیات کی منفی، رجعتی اور مصلحت پسندانہ سوچ ہے۔ اس کی وجہ سے عظیم وطن اور تہذیب کا مالک قوم ایک ایسی قوت کے زیرنگین ہے جس کی نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ کوئی تہذیب۔

آزادی پسند رہنماڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ خان قلات ایک شکست خوردہ نظام کی آخری علامت ہیں۔ انہیں توانا کرنے میں ان قوتوں کو ضرور دلچسپی ہوگی جو ایک قوم اور اجتماعی قیادت کے بجائے چند شخصیات سے مستقبل کے معاملات کے لئے بات چیت کے خواہاں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نیشنلسٹ پارٹی اور تنظیمیں قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں جبکہ ایک فرد کے لئے چند شخصی مراعات ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں دقیانوسی قبائلیت اور قبائلی نظام اپنی طبعی موت مرچکی ہے۔ لہٰذا کسی نام نہاد خان کے سر پر شاہی تاج رکھنے سے نہ معروضی حقائق بدل سکتے ہیں اور نہ ہی سیاسی طور پر طبعی موت مرچکے شخص کو ایک قوم پر مسلط کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم نے اپنی آزادی کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور عظیم قربانیوں کا یہ سفر جاری ہے۔ لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ بلوچ قوم نے یہ قربانیاں کسی فردِ واحد کو خوش کرنے یا بطور بادشاہ منوانے کے لئے نہیں بلکہ اپنی اجتماعی قومی بقاء کے لئے دی ہیں۔ ایک مسترد شدہ فرد کی اس طرح سے آؤ بھگت پوری قوم کی توہین ہے۔ کیونکہ سلیمان داؤد بلوچستان میں نہ سیاسی بساط رکھتے ہیں اور وہ نہ ہی وہ آزادی کی جد و جہد کا ایک سرگرم حصہ ہیں۔ ایسے میں اْنھیں سے حالات کے مطابق ایک مہرے کے طور پر استعمال کرکے عالمی سطح پر بلوچ قومی جد و جہد اور ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے مگر فائدہ صرف ایک شخص کیلئے ہی ممکن ہے جسے ہم مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔