جہد مسلسل کی علامت, ماما قدیر بلوچ
تحریر: محمد عمران لہڑی
دی بلوچستان پوسٹ
شخصی قوت کے حوالے سے بلوچستان اس خطے میں منفرد رہا ہے. اگر ہم بلوچستان کے حالات کے نشیب و فراز کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے شخصیات بکثرت ملتے ہیں جو اپنی عمر کے آخری اسٹیج پر بھی چٹان جیسی ہمت, بلند حوصلے اور ثابت قدم رہے ہیں. ان شخصیات نے اپنی عمر کی اس مقام میں تکالیف اور مشکلات کو موڑ لیا، جہاں اکثر لوگ چارپائی پر زندگی بسر کرتے ہیں یا ویل چیئر یا کسی دوسرے کے سہارے سے چل پھرتے ہیں. یہ عمر کا تقاضہ بھی ہوتا ہے اور جسمانی کمزوری بھی. لیکن بلوچ قوم کی جینز میں یہ شامل رہا ہے کہ جب وقت نے ان کے ضمیر کو پکارا تو وہ عمر کے تقاضے اور جسمانی کمزوری کو بھول کر لبیک کہہ کر میدان میں اترے ہیں. تاریخ اس بات کی شاید ہے کہ جب بلوچستان میں ظلم اور زیادتی حد سے بڑھ جاتی ہے تو نوے سالہ بابو نوروز بلوچ پہاڑوں پر چڑھ کر اپنے قوم اور وطن کا دفاع کرتا ہے. ناانصافیوں پر خاموش رہنے کے بجائے پیران سالی میں نواب اکبر خان بگٹی انصاف کے حصول کیلئے پہاڑوں کو اپنا مسکن بناتا ہے. چونکہ بلوچستان میدانی, صحرائی اور پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ایک خطہ ہے. آج بھی بلوچ قوم کے بوڑھے کئی کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں. اس ٹیکنالوجی کے دور میں جدید ٹیکنالوجی اور مشینری اوزار سے محروم ہوکر اپنے قوت بازو پر اپنے سارے کام کاج کرتے ہیں.
ماما قدیر بلوچ آج بلوچستان کی تاریخ کا ایک باہمت اور بلند حوصلوں کا پیکر بن گیا ہے. صرف بلوچستان نہیں بلکہ پوری دنیا میں جہد مسلسل کی علامت بن گیا ہے. ماما قدیر بلوچ اپنی گیارہ سالہ جدوجہد میں وہ تاریخ رقم کرگیا ہے، جس کی نظیر تاریخ میں بہت کم ملتی ہے. اپنی ستر سالہ عمر میں ان تکالیف, مشکلات اور انسانیت سوز واقعات کا سامنا کیا، میں کہتا ہوں اگر یہ مشکلات کسی پہاڑ پر آتیں تو پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا لیکن یہ تو ماما ہی ہے وفادار بلوچ کا خون، ماما کے جسم میں گردش کرہی ہے.
اس چھوٹے سے مضمون میں ماما کے اس گیارہ سالہ جدوجہد کے ایک دن کی جہد بھی مکمل بیان نہیں ہوسکتا. جسم سے مار دینے والے دھمکیاں, جوان بیٹے کی مسخ شدہ لاش, راستوں میں مختلف قسم کی اذیتیں غرض تمام مصائب و مشکلات کا سامنا کیا لیکن کھبی نہ جھکا, نہ بکا, نہ خوف اور موت کی دھمکیوں سے پیچھے ہٹا…… اپنے جدوجہد کو جاری رکھا. اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ غیر قانونی طور پر لاپتہ تمام بلوچ فرزندوں کی بازیابی تک جدوجہد جاری رہے گی. ناتواں جسم کو سردی کی شدت, بارش کا زور, اپنوں کے لگائے زخم, غیروں کا حملہ، کبھی کمزور نہیں کرسکا. چلتن جیسا ہمت, آماچ جیسی حوصلے, شاشان جیسا ثابت قدم, سمندر جیسی فراخ دلی اور بہادری ماما کے اوصاف ہیں، جس کے بدولت ماما نے پوری دنیا میں ایک زندہ نام کمایا ہے. آج تاریخ بھی ماما کی ہمت پر ناز کرتی ہے.
ماما قدیر کے تاریخی لانگ مارچ نے دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کردی. 27 اکتوبر 2013 کو کوئٹہ پریس کلب سے اسلام آباد تک کا پیدل مارچ ماما کی چٹان جیسی ہمت کی علامت ہے. یہ سفر صرف سفر نہیں تھا بلکہ ماما کیلیے موت کا کھیل تھا. سفر کے شروع سے آخر تک جان سے مارنے کی دھمکیاں حتیٰ کہ کئی مقامات پر گاڑی اور دوسرے ذرائع سے قاتلانہ حملہ بھی ہوا لیکن ماما تو واقعی جہد مسلسل کا نشان ٹہرا. نہ سفر کو ختم کیا اور نہ مقصد سے پیچھے ہٹا. چند بلوچ دختران اور بلوچ فرزند علی حیدر کے ساتھ اس پر کٹھن سفر کو پیدل طے کرکے سامراجی قوت کو یہ باور کرایا کہ بلوچ قوم کو ان کے مقصد سے کوئی طاقت پیچھے نہیں ہٹا سکتا. صرف یہاں تک نہیں اقوام متحدہ اور باقی دنیا کے بڑے بڑے انسانی حقوق کے اداروں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے. انصاف کے حصول کیلئے تمام انصاف کے اداروں، سیشن کورٹ, ہائی کورٹ حتیٰ کہ سپریم کورٹ تک گیا. ان تمام دروازوں کو کھٹکھٹایا جہاں سے انصاف ملنے کی امید تھی.
ماما قدیر بلوچ ان غیر قانونی عمل و حرکات کے خلاف بولتا ہے جو دنیا کے کسی قانون اور آئین میں نہیں. کسی شخص کو ایسا لاپتہ کرنا کہ اس کے بارے میں قانون کی بالادستی کیلئے قائم کورٹ کچہری کو بھی کچھ معلوم نہیں. کسی کو بغیر جیل اور قانون کے 24 گھنٹے لاپتہ کرنا غیر قانونی عمل ہے. اس عمل کے خلاف ماما قدیر گیارہ سال سے بھوک ہڑتالی کیمپ, ریلی, سیمینار, لانگ مارچ کیئے دنیا کے بڑے بڑے انسانی حقوق کے اداروں تک گیا، اپنی آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا. آج دنیا بیشمار انسانی حقوق کے اداروں اور ایکٹیوسٹ ماما کے ساتھ ہم آواز ہوکر غیر قانونی لاپتہ انسانوں کے بازیانی کا نعرہ لگا رہے ہیں. انسانی آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔